واشنگٹن: (ویب ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی سفری پابندی کے تحت افغانستان اور پاکستان کے شہریوں کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کیے جانے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے، جو کہ اگلے ہفتے سے نافذ ہونے کی توقع ہے۔
یہ پابندیاں سیکیورٹی خدشات اور ویزا اسکریننگ میں سختی کی بنیاد پر لگائی جا رہی ہیں، جس کے باعث دیگر ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہوسکتے ہیں، مگر ان کی شناخت ابھی تک واضح نہیں ہے۔
یہ اقدام ٹرمپ کی 2017 میں عائد کردہ متنازع مسلم بین کے بارہ میں یاد دلاتا ہے، جسے سپریم کورٹ نے 2018 میں برقرار رکھا۔ سابق صدر جو بائیڈن نے 2021 میں اس پابندی کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی اور اسے "قومی ضمیر پر ایک بدنما داغ" قرار دیا تھا۔
ہزاروں افغان شہریوں پر برا اثر پڑسکتا ہے جو امریکا میں بطور مہاجر یا اسپیشل امیگرنٹ ویزا ہولڈرز آباد ہونے کے منتظر ہیں۔ ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو امریکا کی افواج کے ساتھ کام کرچکے ہیں اور طالبان کی انتقامی کارروائیوں کا خطرہ مول لے رہے ہیں۔
پاکستان کا نام بھی اس فہرست میں شامل کیے جانے کی تجویز دی گئی ہے، جس سے پاکستانی شہریوں کے لیے امریکا میں داخلہ مزید مشکل ہوجائے گا۔ ٹرمپ نے 20 جنوری کو ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا، جس کے تحت غیر ملکیوں کی سیکیورٹی جانچ پڑتال مزید سخت کرنے کا حکم دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا کی جانب سے پابندیوں کی دھمکی! روس کا جواب آگیا
آرڈر کے مطابق 12 مارچ تک ایک فہرست تیار کی جا رہی ہے، جس میں ان ممالک کو شامل کیا جا رہا ہے جہاں ویزا اسکریننگ اور سیکیورٹی چیک کا معیار کمزور سمجھا جاتا ہے۔
افغان ایویک تنظیم کے سربراہ شون وان ڈائیور نے خبردار کیا ہے کہ امیگریشن ویزا رکھنے والے افغان شہریوں کو جلد از جلد سفر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، کیونکہ آنے والے دنوں میں سفری پابندیاں مزید سخت ہونے کا خدشہ ہے۔
فی الحال، تقریباً 200,000 افغان شہری امریکی ویزا کلیئرنس کے منتظر ہیں، جن میں سے 20,000 پاکستانی سرزمین پر موجود ہیں۔ یہ نئی سفری پابندی ٹرمپ کی امیگریشن سختیوں کے دوسرے دور کا حصہ ہے، جس کا اعلان انہوں نے اکتوبر 2023 میں کیا تھا، جس میں غزہ، لیبیا، صومالیہ، شام اور یمن سے امریکا آنے والوں پر سختی کا عندیہ دیا گیا تھا۔