لاہور: (ویب ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ہونے والی ایک تلخ ملاقات کے بعد یوکرین کو فراہم کی جانے والی تمام فوجی امداد روک دی ہے۔
فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ٹرمپ نے جنوری میں دوبارہ عہدہ سنبھالنے کے بعد یوکرین اور روس کے حوالے سے اپنی پالیسی میں تبدیلیاں کی ہیں، جن میں ماسکو کے بارے میں زیادہ نرم رویہ شامل ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک سینئر عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکا نے یوکرین کی امداد کا جائزہ لینے کا عمل شروع کیا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ امداد کسی مثبت نتیجے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
اس اقدام کی شدید مذمت امریکی کانگریس میں ڈیموکریٹس کی جانب سے کی گئی ہے۔ سینیٹر جین شاہین نے واضح کیا کہ امداد روکنے سے روس یوکرین کیخلاف مزید جارحیت سے پیش آئے گا، جس کے اثرات خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
فرانس کے جونیئر وزیر برائے یورپ بنجمن حداد نے امریکا کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے روس کی پوزیشن مضبوط ہوئی ہے اور امن کے حصول کی کوششیں مزید پیچیدہ ہو گئی ہیں۔
یوکرین کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سربراہ اولیکسنڈر میرژکو کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے فوجی امداد معطل کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکی صدر ممکنہ طور پر کیف کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
امریکی صدر نے ایک مرتبہ پھر زور دیا کہ زیلنسکی کو امریکی حمایت کی زیادہ تعریف کرنی چاہیے، جبکہ انہوں نے زیلنسکی کے حالیہ بیان پر سختی سے تنقید کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت عالمی سطح پر دہشتگردی میں ملوث! ایک بار پھر بے نقاب
یہ صورتحال مبینہ طور پر امریکا اور یوکرین کے تعلقات میں کشیدگی کی عکاسی کرتی ہے، اور عالمی برادری ممکنہ اثرات کا جائزہ لے رہی ہے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان جمعہ کے روز اوول آفس میں ہونے والی ملاقات کے دوران دونوں صدور کے درمیان زبانی بحث ہوئی۔ زیلنسکی نے ٹرمپ کو متنبہ کیا کہ وہ روس اور یوکرین سے متعلق الزامات میں احتیاط برتیں۔
یہ ملاقات ایسے وقت میں ہوئی جب دونوں رہنماؤں کی طرف سے یوکرین کی معدنیات کی صنعت میں امریکی شرکت کا معاہدہ طے ہونے کی توقع تھی۔ مگر زیلنسکی نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے بارے میں ٹرمپ کے نرم رویے پر سخت تنقید کرتے ہوئے ان کو چیلنج کیا اور یہاں سے روانہ ہو گئے۔
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدیدار نے اس بات کی تصدیق کی کہ متنازعہ ملاقات کے بعد زیلنسکی جلدی روانہ ہوئے۔ ٹرمپ نے بعد میں اپنی سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ٹروتھ سوشل' پر ایک پوسٹ میں کہا کہ اگر امریکا جنگ بندی کی کوششوں میں شامل ہو رہا ہے تو وہ امید کرتے ہیں کہ زیلنسکی بھی امن کے لئے تیار ہوں گے۔
اس ملاقات کے دوران، ٹرمپ نے زیلنسکی سے کہا کہ انہیں معاہدے پر دستخط کرنے کی ضرورت ہے، ورنہ امریکا اس معاملے سے پیچھے ہٹ سکتا ہے۔ تاہم زیلنسکی نے واضح کر دیا کہ وہ کسی ایسے معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے جس سے ان کا ملک طویل مدت کیلئے مقروض ہوجائے۔
روس کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زخارووا نے اس ملاقات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹرمپ نے زیلنسکی کے ساتھ نرمی سے پیش آ کر 'تحمل' کا مظاہرہ کیا ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ اور زیلنسکی کی جھڑپ کے بعد سے ہونے والے واقعات نے یورپی سلامتی کے حوالے سے بھی تناؤ پیدا کر دیا ہے، کیونکہ ٹرمپ کے نرم رویے نے پورے یورپ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔