ویڈیو اسکینڈل کیس، سپریم کورٹ نے ایف آئی اے سے تین ہفتوں میں رپورٹ مانگ لی
اسلام آباد ( 92 نیوز ) ویڈیو اسکینڈل کیس میں وفاقی حکومت کی کمیشن بنانے کی مخالفت پر سپریم کورٹ نے ایف آئی اے سے تین ہفتوں میں تحقیقاتی رپورٹ طلب کرلی ۔ عدالت نے ارشد ملک کے کنڈکٹ، مجرم کے گھر جانے اور اسکے رشتہ داروں سے ملاقاتوں پر سوال اٹھادیا ۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا ہوگا جج نے اپنا موقف ایمانداری سے دیا یا نہیں، بظاہرلگتا ہے کہ جج ارشد ملک کو بلیک میل کیا گیا۔
جج ارشد ملک ویڈیو کیس میں اٹارنی جنرل سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ، بتایا کہ کہانی میاں طارق سے شروع ہوئی اور سلیم رضا، ناصر بٹ سے ہوتی ہوئی احتساب عدالت کے جج پر جا کر اختتام پذیر ہوئی ، ملزم میاں طارق جیل میں ہیں جبکہ دیگر دو بیرون ملک ہیں۔
انہوں نے عدالت میں دائر درخواستوں کی مخالفت کردی ، موقف اپنایا کہ قانونی فورم دستیاب ہے تو کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ویڈیو سے جج کے موقف کا ایک حصہ درست ثابت ہوگیا، جج نے ایسی حرکت کی تھی تب ہی وہ بلیک میل ہوا ، تاہم بطور جج ارشد ملک کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ایک ویڈیو وہ بھی ہے جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے جج کے مطابق نواز شریف سے ملاقات اپریل میں ہوئی ، نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس میں بروقت اپیل دائر کی، سوال اٹھایا کہ جج نے اپریل میں درخواست کا جائزہ کیسے لیا، دیکھنا ہوگا جج نے اپنا موقف ایمانداری سے دیا یا نہیں ، جج کے کنڈکٹ کا خود جائزہ لیں گے ، کسی کا نقصان نہیں کریں گے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آڈیو اور ویڈیو کی ریکارڈنگ الگ الگ کی گئی تھی جب کہ پریس کانفرنس میں آڈیو اور ویڈیو کو جوڑ کر دکھایا گیا، آڈیو ویڈیو مکس کرنے کا مطب ہے اصل مواد نہیں دکھایا گیا۔
منصف اعلیٰ نے سوال اٹھایا کہ کیا جج کا سزا دینے کے بعد مجرم کے گھر جانا؟،کیا مجرم کے رشتے داروں اور دوستوں سے گھر اور حرم شریف میں ملنا درست ہے؟۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ ازسرنو ٹرائل کیلئے کیس بھیج سکتی ہے ، شواہد کا جائزہ لیکر ہائیکورٹ ہی نوازشریف کوریلیف دے سکتی ہے لیکن ہائی کورٹ میں ابھی تک کسی فریق نے درخواست نہیں دی۔
عدالت نے ایف آئی اے کو تین ہفتوں میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔