Friday, March 29, 2024

‏52 اسلامی ممالک کے سربراہان کی کانفرنس 18 دسمبر سے ہوگی

‏52 اسلامی ممالک کے سربراہان کی کانفرنس 18 دسمبر سے ہوگی
December 14, 2019
کوالالمپور ( 92 نیوز) 18دسمبر کو ملائیشیا میں کوالالمپور سمٹ کے نام سے اسلامی دنیا  کی ایک بڑی کانفرنس ہونے جارہی ہے جس میں 52اسلامی ممالک کے 450 افراد شرکت کررہے ہیں جن میں  سربراہان ،نمائندے ،سکالر اور دانشور شامل ہیں۔ کانفرنس نے شروع ہونے سے پہلے ہی اسلامی دنیا میں ہلچل مچا رکھی ہے ،  جس میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان، ترک صدر طیب اردوان،ایرانی صدرحسن روحانی،امیرقطر  تمیم بن حامد الثانی خصوصی طور پر شرکت کررہے ہیں۔ مشرق بعید سے افریقہ تک سمندری راستوں پر اسلامی ممالک کا راج ہے ، کیا سمندری تجارت کے لئے اسلامی دنیا میں نئی صف بندی ہونے جارہی ہے ، کیا پاکستان ترکی اور ملائیشیا اسلامی دنیا کی قیادت کرنے جارہے ہیں ، یہ وہ سوالات ہیں جو ملائیشیا میں ہونے والی اسلامی کانفرنس سے پہلے اٹھائے جارہے ہیں۔ کے ایل سمٹ 2019 کوالالمپور میں 18 سے 21 دسمبر کو ہونے جارہی ہے جس میں 52 اسلامی ممالک نے شرکت کی حامی بھر لی ہے ، جبکہ اس کانفرنس کی خاص بات ترک اور ایرانی صدور ، ملائیشین اور پاکستانی وزرائے اعظم اور امیر قطر کا ایک اسٹیج پر اکٹھا ہونا ہے ۔ ملائیشین وزیر اعظم مہاتیر محمد کا کہنا ہے کہ ترکی، پاکستان اور قطر اس کانفرنس میں مرکز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ میڈیا کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کی سائیڈ لائن پر ترکی پاکستان اور ملائیشیا کے سربراہان نے اس کانفرنس کے انعقاد کا حتمی فیصلہ کیا تھا ، پھر ایران کے صدر حسن روحانی اور امیر قطر کی شرکت نے اس کانفرنس کی افادیت میں غیر معمولی اضافہ کردیا ہے۔ ماضی میں مسلم امہ کو درپیش مسائل کی جب بھی بات ہوتی تھی ساری نظریں او آئی سی کی جانب لگ جاتی تھیں ۔ او آئی سی میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات قیادت کرتے نظر آتے تھے۔ عالمی میڈیا میں چلنے والی خبروں اور تجزیوں کے مطابق کے ایل سمٹ اس لئے بھی اہم ہے کہ ایک نیا اسلامی بلاک بننے جارہاہے کیونکہ او آئی سی مسلم ممالک کو درپیش چیلنجز کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ مسئلہ فلسطین پر او آئی سی نے روایتی مذمت کے سوا آج تک کچھ نہیں کیا ، مسلم ممالک میں خانہ جنگی ہے،معاشی بحران ہیں لیکن او آئی سی نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے۔ دنیا میں اسلام کے تشخص کو بحال کرنے بھی او آئی سی کا کردار صفر رہاہے ، یہ وہ بنیادی نکات تھے جس کی وجہ سے نئے اسلامی اتحاد کی تشکیل کی جارہی ہے۔ اس اجلاس کے انعقاد میں کلیدی کردار ادا کرنے والے ممالک میں انڈونیشیا بھی تھا اور انڈونیشی صدر نے شرکت بھی کرنی تھی مگر اب انڈونیشیا کے صدر نے معذرت کرلی ہے ، عالمی میڈیا پر یہ بھی خبریں گرم ہیں کہ اسی وجہ سے کانفرنس میں شرکت سے قبل عمران خان ہنگامی دورے پر سعودی عرب گئے ہیں جہاں وہ سعودی قیادت کو اعتماد میں لیں گے۔ سیاسی پنڈت یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ او آئی سی کا جھکاؤ امریکا کی جانب ہے جبکہ نیا اسلامی بلاک روس کی طرف جھکاؤ رکھے گا کیونکہ اس کی قیادت میں ترکی،ایران شامل ہیں۔ یوں یہ کانفرنس عالمی سیاست کو بھی ایک نیا رخ دے گی۔