Saturday, April 20, 2024

ہجوم کی طرف سے تشددکےبعد جلائی جانیوالی فرخندہ بے گناہ تھی :تفتیش کار

ہجوم کی طرف سے تشددکےبعد جلائی جانیوالی فرخندہ بے گناہ تھی :تفتیش کار
March 22, 2015
کابل(ویب ڈیسک)کابل میں پولیس کے سامنے مشتعل ہجوم کی جانب سے جلائی جانے والی خاتون تفتیش کاروں کے مطابق بے گناہ تھی ،خاتون پر الزام  تھا کہ اس نے قرآن پاک کے اوراق کوجلایا تھا۔ موبائل فون کے ذریعے بنائی گئی فوٹیج اور سوشل میڈیا پر چلنے سے یہ واضح دیکھا جاسکتا ہے کہ خاتون جس کا نام فرخندہ ہے پر پولیس کے سامنے ڈنڈوں سے تشدد کیا گیا اور بعد میں اسے آگ لگا کر جلادیا گیا۔ جنرل محمد ظاہرنے رائٹرز کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے فرخندہ کے بارے میں ساری دستاویزات کا بغور مطالعہ کیا اور انہوں نے پورے ثبوت بھی دیکھ کر فرخندہ کو قرآن پاک کے جلانے والے واقعہ میں معصوم قرار دیا ہے اور کہا کہ وہ بے گناہ تھیں۔ اس موقع پر تفتیش کا رکاکہناتھا کہ وہ اس کیس میں ملوث تیرہ افراداور 8پولیس افسران جو پہلے ہی گرفتار ہوچکے ہیں کو ہر صورت سزا دلوائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اس قتل کی مذمت کی تھی لیکن ان کے کچھ سٹاف ممبران نے کہا تھا کہ مسلمان مردوں کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنےمذہبی عقائد کا ہر قیمت پر تحفظ کریں۔ فرخندہ کے بھائی نجیب اللہ جس نے اپنی بہن کی یاد میں نام فرخندہ رکھ لیا ہے نے بتایاکہ اس کی بہن اسلامی تعلیم کی استاد تھیں۔ انہوں نے میڈیا کی  رپورٹس کو بھی رد کردیا کہ جن میں بتایا گیا تھا کہ فرخندہ دماغی طور پر بیمارہیں ۔ اس کے بھائی نے یہ بتایا کہ یہ صرف ان کے والد نے بیماری کا ذکر کیا تھا کیوں کہ پولیس نے ہمیں اپنی حفاظت کےلئے شہرچھوڑنےکا کہا تھا۔ اس نے بتایا کہ میرے والد نے لوگوں کو پرامن رکھنے کےلئے جھوٹابیان دیا تھا ۔ نجیب اللہ نے بتا یا کے ان کی بہن کی آخری رسومات میں سینکڑوں لوگوں نے شرکت کی اور ان کے جنازے کو انسانی حقوق کےلئے کام کرنے والی خواتین نے اٹھایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں صرف انصاف چاہیے ۔ امریکہ جو پچھلی ڈیڑھ دہائی سے افغانستان میں بلین ڈالرز انصاف ،قانون اور عورتوں کے حقوق کو اجاگر کرنے کےلئے خرچ کررہا ہے ۔ طالبان کے دور حکومت میں میں خواتین جن پر سکولوں اور باہر کام کرنے کے دروازے بند تھے اور وہ اپنے محرم کے بغیر گھر سے بھی باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔ افغانستان میں یہ دیکھا گیا ہے کہ پچھلی ایک دہائی کے دوران انسانی حقوق اور خاص طور پر خواتین کے حقوق میں بہتری آئی ہے اب وہ سکول اور کالج بھی جانے کے ساتھ ساتھ نوکریاں بھی کررہی ہیں لیکن ابھی دیہاتی علاقے میں کچھ پابندیاں ہیں۔