Wednesday, May 8, 2024

گاڑیوں پر سامان کے وزن کی حد اچانک کم کر دی گئی

گاڑیوں پر سامان کے وزن کی حد اچانک کم کر دی گئی
September 16, 2019
اسلام آباد ( 92 نیوز) حکومت سرمایہ کاری میں آسانیاں پیدا کرنے کے بجائے مشکلات بڑھانے لگی ، گاڑیوں پر سامان کے وزن کی حد اچانک کم کر دی گئی  جس سے 4 ہزار ارب روپے کی صنعت اور ایک ہزار ارب روپے کی گڈز ٹرانسپورٹ انڈسٹری متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا۔ وزارت مواصلات اور نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے انوکھا کارنامہ انجام دیتے ہوئے  موٹر ویز اور ہائی ویز  پر مال بردار گاڑیوں پر سامان کے وزن کی حد اچانک  کم  کر دی ۔صنعت کاروں اور گڈز ٹرانسپورٹرز سے مشاورت بھی ضروری نہ سمجھی ۔ ڈبل ایکسل ٹرک میں سامان لے جانے کی حد 30 ٹن سے کم کرکے 17 اعشاریہ 5 ٹن کر دی  ، تین ، چار ، پانچ اور چھ ایکسل کے ٹرالر پر سامان کے وزن کی حد 40 فیصد کم کرتے ہوئے بالائی حد 61 اعشاریہ 5 ٹن مقرر کر دی ۔ خلاف وزری کے مرتکب ٹرکوں اور ٹرالروں کو ہائی وے اور موٹروے ویز پر آنے کی پابندی اور بھاری جرمانہ عائد کرنے کا سلسلہ شروع  کر دیا گیا۔ کراچی سے اسلام آباد آنے والے 6 ایکسل ٹرالر کا کرایہ 2 لاکھ 80 ہزار روپے تھا تاہم وزن کی حد کم کرنے کے نتیجے میں تاجروں کو ایک ٹرالر کا سامان دو ٹرالروں میں لانا پڑ رہا ہے ،  اس پر کراچی سے اسلام آباد ترسیلی اخراجات 40 فیصد اضافے سے 6 لاکھ روپے کے قریب پہنچ چکے ہیں ۔ تاجروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے حکومت کے بھیانک یکطرفہ اقدام کے باعث آنے والے دنوں میں خوردنی تیل سمیت مختلف ضروریات زندگی 10 سے 15 فیصد مزید مہنگی ہو ہوسکتی ہیں جبکہ یہ اقدام ماحولیاتی آلودگی اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کے امپورٹ بل میں بھاری اضافہ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ گڈز ٹرانسپورٹر سراپا احتجاج  بن چکے ہیں اور  سروس بند کرنے کی دھمکی دے ڈالی  جب کہ  صنعت کار بھی صورتحال سے پریشان  دکھائی دیتے ہیں ۔  حکومتی اقدام سے  چار ہزار ارب روپے کی صنعت اور ایک ہزار ارب روپے کی گڈز ٹرانسپورٹ انڈسٹری متاثر  ہونے کا خدشہ ہے ۔ ملک بھر میں اشیائے ضرورت اور خام مال کی ترسیل کو بریک لگ جانے سے مہنگائی کا نیا طوفان آنے کا بھی اندیشہ  ہے ،  پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہونے اور ان کی ملک گیر قلت کے خطرات بھی منڈلانے لگے ۔ متاثرین کہتے ہیں حکومت فی الفور اپنا فیصلہ واپس لے ورنہ خوردنی تیل  ،  کھاد اور سیمنٹ کی ترسیل متاثر ہوسکتی ہے  جبکہ صنعتوں اور ٹرک انڈسٹری سے وابستہ لاکھوں افراد بھی بے روزگار ہو جائیں گے ، حکومت خدشات سے آگاہی کے باوجود مسئلے سے چشم پوشی کر رہی ہے ۔