Friday, April 19, 2024

ایک ہفتے میں کورونا سے متعلق یکساں پالیسی بنائی جائے ،سپریم کورٹ

ایک ہفتے میں کورونا سے متعلق یکساں پالیسی بنائی جائے ،سپریم کورٹ
May 4, 2020

اسلام آباد ( 92 نیوز)  سپریم کورٹ میں کورونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت  کے دوران چیف جسٹس نے وفاقی و صوبائی حکومتوں کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار کردیا۔جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ایک ہفتے کا وقت دیتے ہیں کورونا کے حوالے سے یکساں پالیسی بنائی جائے، یکساں پالیسی نہ بنی تو عبوری حکم جاری کریں گے،  وفاقی حکومت اور صوبوں کے درمیان تعاون نہ ہونے کی وجہ غرور اور انا ہے ۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ صدر مملکت اور وزیراعظم کے ارادے نیک ہوں گے،لیکن کچھ ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا ، پورے ملک میں حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں ، جن کا روزگار گیا ان سے پوچھیں کیسے گزارا کر رہے ہیں ،  کام کرنا ہے تو نیک نیتی اور شفافیت سے کریں ، کیا گندم غائب کرنے والے انسان کہلائے جا سکتے ہیں؟ ، جو زکٰوۃ اور صدقے کا پیسہ کھا جائیں ان سے کیا توقع رکھیں گے ، ہمارے ملک کا ایک حصہ چلا گیا، باقی حصوں میں آگ لگی ہے۔

کورونا از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران  چیف جسٹس نے ریمارکس دیے  کہ کام کرنا ہے تو نیک نیتی اور شفافیت سے کریں ، پولیس کو شہریوں سے بدتمیزی کی اجازت نہ دی جائے ، لاہور قرنطینہ سے پیسے لیے بغیر کسی کو جانے نہیں دیا جاتا، جو اسپتال جاتا ہے وہ واپس نہیں آ سکتا، اسپتال سے لاش وصول کرنے کیلئے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں۔

چیف جسٹس گلزار احمد  نے ریمارکس دیے کہ  خیبرپختونخوا میں بھی  صورتحال اچھی نہیں، وہاں  اموات میں اضافہ ہورہا ہے، پولیس نے میڈیکل شعبہ کے افراد پر تشدد کیا ، کنسلٹنٹ بننے کیلئے 20 سال لگتے ہیں لیکن پولیس کو لائسنس دے دیا گیا ہے جس کی مرضی گردن پکڑ لے ، بدسلوکی کرلے ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صوبائی حکومت کا وزیر کہتا ہے  وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کریں گے پتہ ہے کہ صوبائی وزیر کیا کہہ رہے ہیں؟، یعنی صوبائی وزیر کا دماغ بالکل آؤٹ ہے، دماغ پر کیا چیز چڑھ گئی ہے پتہ نہیں، سندھ حکومت کہتی ہے 150 فیکٹریوں کو کام کی اجازت دینگے،جامع پالیسی بنا کر تمام فیکٹریوں کواجازت ملنی چاہئے۔

عدالت نے حفاظتی سامان کی خریداری ، راشن کی تقسیم میں شفافیت پر سوال اٹھا دیا ، کورونا وائرس کے پیش نظر وفاق اور صوبوں کی مختلف پالییسوں پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا ،  دوران سماعت سیکرٹری صحت نے قرنطینہ سینیٹرز میں سہولیات بارے بریف کیا  تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پورے ملک میں حالات ابتر ہوتے جا رہے ہیں، لاہور قرنطینہ سے پیسے لیے بغیر کسی کو جانے نہیں دیا جاتا ،جو اسپتال جاتا ہے وہ واپس نہیں آ سکتا ،اسپتال سے لاش وصول کرنے کیلئے بھی پیسے دینے پڑتے ہیں ۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ سندھ حکومت کہتی ہے 150 فیکٹریوں کو کام کی اجازت دیں گے، سمجھ نہیں آتی ایک درخواست پر کیا اجازت دی جائے گی ، دکانیں کھولنے کیلئے بھی رشوت دینا پڑتی ہے ، ایک صوبائی وزیر کہتا ہے کہ وفاقی حکومت کے خلاف مقدمہ کرا دینگے ،

یعنی صوبائی وزیر کا دماغ بالکل آؤٹ ہے ، پتہ نہیں دماغ پر کیا چیز چڑھ گئی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ صوبوں کو ایسے کاروبار روکنے کا کوئی اختیار نہیں جو مرکز کو ٹیکس دیتے ہیں، کسی سیاسی معاملے میں نہیں پڑیں گے لیکن جس قیمت پر عوام کو سہولیات مل رہی ہیں وہ بھی دیکھیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کیا گندم غائب کرنے والے انسان کہلائے جا سکتے ہیں؟ ،ابھی کسی کرپٹ بندے کو عدالت بلائیں دیکھیے گا کیسے جھوٹ بولے گا ، ، نیب، ایف آئی اے، اینٹی کرپشن پتہ نہیں کیا کررہے۔

کتنا حفاظتی سامان خریدا گیا، کیسے تقسیم ہوا، سپریم کورٹ نے این ڈی ایم اے سے تفصیلات طلب کرلیں ، پشاور میں تمام کلینک ایس او پیز کے مطابق کھولنے کا حکم دے دیا، وفاقی معاملات پر صوبائی حکومتوں کی مداخلت ،زکواۃ اور بیت المال فنڈز میں کرپشن پر وفاقی و صوبائی حکومتوں سے جواب طلب قرار دیا کہ آئندہ سماعت پر فیصلہ کرینگے کرپشن کیس نیب کو دینا ہے یا ایف آئی اے کوسماعت دو ہفتوں بعد دوبارہ ہوگی۔