Sunday, September 8, 2024

کتب بینی کے شوق نے رکشا ڈرائیور کو مصنف بنا دیا !!! کتاب سے محبت کے عالمی دن پر کتب بینوں کیلئے محمد فیاض کی ان کہی کہانی

کتب بینی کے شوق نے رکشا ڈرائیور کو مصنف بنا دیا !!! کتاب سے محبت کے عالمی دن پر کتب بینوں کیلئے محمد فیاض کی ان کہی کہانی
August 9, 2015
لاہور (92نیوز) پاکستان سمیت دنیابھر میں آج کتاب سے محبت کا عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں کتابیں اور ان کو پڑھنے والے موجود نہ ہوں۔ سب سے زیادہ کتابیں ترقی یافتہ ممالک میں پڑھی جاتی ہیں اور لکھی بھی وہیں جاتی ہیں شاید اسی لئے ترقی یافتہ قومیں حاکم اور ترقی پذیر قومیں محکوم کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کتابیں ہمیں تہذیب و تمدن سے آشنا کرتی ہیں اور ہمارے دماغ کو بے پناہ وسعت دیتی ہیں جس کی بدولت ہم اپنی زندگی کو بہتر طریقے سے بسر کر سکتے ہیں۔ کتاب کو بہترین دوست اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ کتاب کو کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں خواندگی کی شرح دوسرے ممالک کی نسبت بہت کم ہے، حکمرانوں کو چاہیے کہ عوام میں کتب بینی کے فروغ کیلئے اقدامات اٹھائے۔ کہتے ہیں علم پر کسی کی اجارہ داری نہیں ہے۔ ادنیٰ انسان بھی اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کی بنا پر خواص میں جگہ پا لیتا ہے۔ کتابوں سے محبت کے عالمی دن پر ہم آپ کا تعارف ایک ایسے ہی انسان سے کراتے ہیں جو پیشے کے اعتبار سے تو رکشا ڈرائیور ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک مصنف بھی ہے۔ فیصل آباد کا محمدفیاض سارا دن ہاتھوں میں رکشے کا سٹیئرنگ سنبھالے رکھتا ہے اور گھر لوٹتے ہی قلم سنبھال لیتا ہے۔ فیاض اپنے لوڈر رکشے پر تاجروں کا کپڑا ایک سے دوسری مارکیٹ میں منتقل کرنے کا کام کرتا ہے۔45سالہ فیاض رکشا ڈرائیوری کے ساتھ ساتھ اب تک 12ناول اور 100 سے زائد ڈرامے لکھ چکا ہے۔ اس کے کام کی مقبولیت اس قدر زیادہ ہے کہ اب تک شائع ہونے والے کل 12 میں سے 11 ناول تین تین بار دوبارہ شائع ہو کر بک چکے ہیں لیکن مفلسی کا یہ عالم ہے کہ وہ آج بھی وفاقی وزیر پانی و بجلی عابد شیر علی کے بالکل پڑوس میں پونے 2 مرلے پر مشتمل کرائے کے مکان میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ فیاض کے 4بچے ہیں اور وہ فیصل آباد میں کرائے کے ایک مکان میں مقیم ہے جس کا ماہانہ کرایہ 6ہزار روپے ہے۔ فیاض خود بھی ایک غریب خاندان میں پیدا ہوا اور میٹرک کی 40 روپے داخلہ فیس نہ ہونے کے باعث اپنی رسمی تعلیم مڈل سے آگے نہ بڑھا سکا تاہم غربت کو کتابیں پڑھنے کے شوق پر کبھی حاوی نہیں ہونے دیا۔ فیاض رات گئے تک کام کرکے یومیہ چار سے ساڑھے چار سو روپے کماتا ہے۔ فیاض کہتا ہے کہ میری تعلیم چھوٹی تو میں نے اپنا اور گھر والوں کا پیٹ پالنے کےلئے ریڑھی پر چھلیاں بیچنا شروع کیں چونکہ مجھے کتابوں کا جنون کی حد تک شوق تھا اس لیے میں تھوڑے بہت پیسے جمع کرتا رہا اور ایک دن اس قابل ہو گیا کہ اپنی لائبریری بنا لی اور وہاں بیٹھ کر زندگی کی حقیقتوں کو قلمبند کرنا شروع کر دیا۔ فیاض کا پہلا ناول ”گھنگھرو اور کشکول“ 2005ءمیں شائع ہوا جس میں اس نے طوائفوں کی زندگیوں کے مختلف پہلووں اور ان کے ساتھ ناروا معاشرتی برتاو کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ وہ اب تک گھنگھرو اور کشکول، گیلے پتھر، کاغذ کی کشتی، کانچ کا مسیحا، تاوانِ عشق، عین شین قاف، موم کا کھلونا، ٹھہرے پانی، میرا عشق فرشتوں جیسا، لبیک اے عشق، شیشے کا گھر اور پتھر کے لوگ تک مختلف ناول لکھ چکے ہیں۔