Friday, April 26, 2024

چین اور امریکا کے درمیان جاری تجارتی جنگ ٹیکنالوجی وار میں تبدیل

چین اور امریکا کے درمیان جاری تجارتی جنگ ٹیکنالوجی وار میں تبدیل
May 22, 2019
 بیجنگ (92 نیوز) چین اور امریکا کے درمیان جاری تجارتی جنگ ٹیکنالوجی وار میں تبدیل ہو گئی۔ اب دنیا میں کون معاشی سپر پاور ہوگا اور کون ٹیکنالوجی کا بے تاج بادشاہ کہلائے گا ، دہائیوں کی بات اب سالوں پر آگئی۔ ہواوے پر امریکی پابندی ، پھر گوگل کی جانب سے لائسنس منسوخی اور پھر لائسنس کی عارضی بحالی۔ یہ وہ اقدامات تھے جو اب تک امریکا کی جانب سے چین کو معاشی میدان میں سبق سکھانے کے لئے کئے گے۔ نہ چین امریکہ کے سامنے جھکا اور نہ ہی ہواوئے نے درخواست کی بلکہ پوری دنیا سمیت خود امریکہ میں موجود کمپنیاں پریشان ہیں کہ چینی ردعمل سے پوری دنیا کا معاشی نظام ہل جائے گا۔ گوگل کی جانب سے لائسنس منسوخ کئے جانے کے بعد ہواوئے نے کوئی ردعمل نہیں دیا بلکہ یہ اعلان کر دیا کہ ہواوے اپنا آپریٹنگ سسٹم لانے جارہاہے جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ اب وہ وقت دور نہیں جب ہواوے کو گوگل کے او ایس سسٹم کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ یہی نہیں بلکہ ہواوے اگلے سال گلوبل موبائل مارکیٹ کا لیڈر بن جائے گا اور سیم سنگ کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ ہواوے کے مالک رین زینگ فی کا کہنا ہے کہ گوگل کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں سے ہواوے پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا اور ہم اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے پہلے سے ہی تیار ہیں۔ امریکہ نے ہماری صلاحیتوں کا غلط اندازہ لگایا ہے۔ انتظامیہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہواوے کے نئے لانچ ہونے والے موبائل پہلے گوگل سے رجسٹرڈ ہیں۔ ان پر گوگل کی پابندی کا اطلاق نہیں ہو گا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور روس کے درمیان شروع ہونے والی سرد جنگ کا خاتمہ سوویت یونین کی تحلیل پر ہوا۔ اس جدید دور میں چین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ جاری ہے جو اب کھل کر معاشی میدان میں لڑی جا رہی ہے۔ اب وہ وقت دور نہیں جب چین معاشی سپر پاور ہوگا اور ٹیکنالوجی پر بھی اسی کا راج ہو گا۔ چین اور امریکہ کی اس تجارتی جنگ میں دنیا بھر کی ملٹی نیشنل کمپنیاں پریشان ہیں۔ نائیکی اور ایڈیڈاس سمیت 173 ملٹی نیشنل کمپینوں نے خط لکھ کر چین اور امریکا کے درمیان ٹیرف بڑھانے کی دوڑ پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ دوسری جانب امریکی چیمبر آف کامرس ان چائنا کی جانب سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور ہواوے کے خلاف کئے جانے والے اقدام کے بعد اب چین کی جانب سے جوابی ردعمل کا انتظار کررہے ہیں۔ امریکی چیمبر آف کامرس ان چائنا  چین میں 900 سے زائد امریکی کمپنیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ ان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیشتر امریکی کمپینوں نے چین سے اپنے دفاتر دوسرے ممالک میں شفٹ کرنے کا ارادہ بھی کرلیا ہے۔ یہ بات ہواوے موبائل کپمنی کی نہیں بلکہ ٹیکنالوجی پر اجارہ داری کی ہے۔ دیکھتے ہیں امریکہ بہادر کامیاب ہوتا ہے یا چینبنتا ہے ٹیکنالوجی کا نیا بے تاج بادشاہ۔