Thursday, April 25, 2024

چونیاں سے ملنے والی دو بچوں کی لاشوں کی شناخت ہو گئی

چونیاں سے ملنے والی دو بچوں کی لاشوں کی شناخت ہو گئی
September 23, 2019
لاہور ( 92 نیوز ) چونیاں میں  7 روز قبل ملنے والی دو بچوں کی لاشوں کی ڈی این اے رپورٹ پولیس کو موصول ہو گئی ، لاشیں محلہ غوثیہ آباد سے اغوا ہونیوالے  بچوں علی حسنین اور سلمان اکرم کی ہیں ۔ پولیس آج دونوں بچوں کی لاشیں ورثا کے  حوالے کرے گی ، دوسری جانب بچوں کے قاتل تاحال قانون کی گرفت سے آزاد ہیں۔ کیس میں  500سے زائد افراد کے ڈی این اے نمونے لے لئے گئے  ہیں جب کہ جیو فینسنگ مکمل کر کے ڈیٹا پر تفتیشی افسران نے کام شروع کر دیا ۔  پولیس کے مطابق علاقے میں جیو فینسنگ سے مشکوک کالز کو ٹریس کیا جائے گا، وہاں کسی ایسے فون نمبر کا پتا چلتا ہے جسے وہاں کال موصول ہوئی یا میسیج آیا تو وہ تحقیقات کے دائرے میں آ سکتا ہے ۔

چونیاں میں ایک اور بچہ اغوا، شہریوں کا احتجاج

قوی امکان ہے ملزم اسی علاقے سے تعلق رکھتا ہے ، چند دنوں سے علاقہ سے غائب افراد کو بھی ٹریس کیا جارہا ہے ، مزید گیارہ مشکوک افراد کو بھی حراست میں لے لیا گیا، لاہور سے گرفتار ایک اہم ملزم کو واقعہ سے جوڑنے کی کوشش بھی ناکام ہو چکی ہے ، گرفتار ملزم سے چونیاں سانحہ پر پیش رفت نہ ہو سکی،۔ امسال 17 ستمبر کو تین بچوں کی نعشیں ملی تھیں، پولیس کا عملہ بھی تبدیل کردیا گیا، تاہم بات مشکوک افراد کی گرفتاری اور ڈی این اے نمونے حاصل کرنے سے آگے نہیں بڑھ سکی، پنجاب فرانزک لیبارٹری کے عملہ نے کام جاری رکھا اور لاہور بھیجے گئے ڈی این اے نمونے 5 سو ہوگئے ۔ پولیس افسر مسلسل بیان دے رہے ہیں کہ ہم ملزمان کے قریب پہنچ گئے ہیں، لواحقین اور عوام نے موقف اختیار کیا پولیس طفل تسلیوں سے کام لے رہی ہے ، ہمارے بچے عدم تحفظ کا شکا رہیں ، پانچ روز سے ہم صرف اس ڈر اور خوف میں مبتلا ہو کر اپنے کم سن بچوں کو سکولز میں نہیں بھیج رہے ۔ عوامی ،سماجی اور سیاسی جماعتوں ، انسانی حقوق سے تعلق رکھنے والے افراد نے وزیر اعلی پنجاب کو بھی تشدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا وزیر اعلیٰ نے چونیاں آکر میڈیا نمائندگان اور چونیاں کی عوام سے جو برتاؤ کیا اسکی مثال نہیں ملتی ، وزیر اعلیٰ نے جس طرح ملزمان کو گرفتار کرانے والے کیلئے 50 لاکھ کا اعلان کیا، مقتول بچوں کے ورثا کیلئے مالی امداد کا بھی اعلان کرتے ۔

چونیاں میں اغوا کا خوف ، ماں نے بچہ زنجیروں میں جکڑ دیا

دوسری طرف ذرائع کے مطابق قصور میں بڑھتے جنسی واقعات کی وجہ پولیس کی روایتی سستی اور سیاسی دباؤ میں آکر ملوث افراد کو بچانے کا عمل ہے ، پولیس میں ملزمان تک پہنچنے کیلئے تربیت یافتہ اہلکاروں کی بھی کمی ہے ، انویسٹی گیشن پر مامور انچار ج کئی سالوں سے ایک ہی جگہ تعینات رہتے ہیں، یہ بات بھی حصول انصاف میں رکاوٹ بن رہی ہے ۔ تھانہ سٹی قصور میں تفتیشی آفیسرتین سال سے زائد عرصہ سے ایک ہی سیٹ پر تعینات ہے ، حویلی پھاڑیاں والی کے دو پولیس ملازمین لڑکیوں کی ویڈیو بنا کر انکو بلیک میل کرنے میں ملوث رہے مگر 7 سال بعد بحال ہوگئے ۔