Monday, May 13, 2024

پیپلز پاورٹی ریڈیکشن پروگرام،سندھ گورنمنٹ کی دیہی گھرانوں کو سپورٹ مثبت تبدیلیاں لا رہی ہے

پیپلز پاورٹی ریڈیکشن پروگرام،سندھ گورنمنٹ کی دیہی گھرانوں کو سپورٹ مثبت تبدیلیاں لا رہی ہے
September 1, 2020
سندھ گورنمنٹ کا پیپلز پاورٹی ریڈیکشن پروگرام غربت میں کمی لانے کے حوالے سے نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ صوبہ سندھ کے چھ(6) اضلاع  ٹھٹھہ، بدین، میرپورخاص، عمرکوٹ، سانگھڑ اور خیرپور میں جاری یہ پروگرام پسماندہ عوام کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن (سرسو) کے تحت عمل میں لائے جانے والے اس پروگرام کے تحت غریب گھرانوں کو امدادی رقوم،  انکم جنریشن گرانٹ  (Income Generation Grant) کی صورت میں اور بلا سود قرضوں کی فراہمی،  کمیونٹی انویسٹمنٹ فنڈ (Community Investment Fund) کے تحت کی جارہی ہیں،  تاکہ وہ ازخود اپنے ’’پیروں“  پر کھڑے ہونے کے قابل بن سکیں اور آمدنی کے بہتر ذریعوں کو اپنا کر اپنی زندگیوں میں خوشگوار تبدیلیاں لاسکیں۔ لو کاسٹ ہاوسنگ اسکیم (Low Cost Housing Scheme)  کے تحت نادار افراد کو رقوم کی فراہمی گھروں کی تعمیر میں معاونت فراہم کر رہی ہے۔ ہنرمندی، حوصلے، ارادے اور جذبے یکجا  ہو جائیں تو کیا ممکن نہیں!! بزنس ڈیولپمنٹ گروپس  (Business Development Groups)کی تشکیل اور ان گروپس کو رقوم کی فراہمی مجموعی طور پر خوشحالی لانے کا  سبب بن رہی ہے۔ نوجوانوں کے وکیشنل ٹریننگ پروگرام (Vocational Training Programme) کے ذریعے  ہنرمندانہ تربیت کے بھرپور مواقعوں کی دستیابی بے روزگاری کے خاتمے میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ پیپلز پاورٹی ریڈیکشن پروگرام کے تحت بنائے جانیوالی  کمیونٹی آرگنائزیشن(سی او)،  ویلیج آرگنائزیشن  (وی او)  اور  لوکل سپورٹ گروپ (ایل ایس او) کمیونٹیز کو متحرک  اور فعال  بنانے اور پروگرام کے تحت انجام دی جانے والی تمام سرگرمیوں میں نمایاں کردار ادا کر رہی ہیں۔ کمیونٹی آرگنائزیشن میں شامل دیہی گھرانوں کی خواتین کی جانب سے سب سے پہلے مائکرو انویسٹمنٹ پلان بنایا جاتا ہے، جسمیں آمدنی میں اضافے کے مختلف ذریعوں کو زیرِغور لایا جاتا ہے، اور دیکھا جاتا ہے کہ فیملی میمبرز کیا ایسے کام کر سکتے ہیں کہ جو روزگار میں اضافے کا سبب بنیں، اور کیا ایسی مشکلات ہیں جو بہتر زندگی کے حصول میں رکاوٹ بنی ہوئیں ہیں۔ مائکرو پلان بننے کے بعد پیپلز پاورٹی ریڈیکشن پروگرام مزکورہ بالا طریقوں (Interventions)کے تحت دیہی خواتین کو مکمل سپورٹ فراہم کرتا ہے۔

کمیونٹی انویسٹمنٹ فنڈ کے ذریعے غریب دیہی گھرانوں کی سپورٹ اپنی مثال آپ ہے!

 ٹھٹھہ کے گاؤں خمیسو سموں میں بتیس سالہ خطولی کی زندگی ازحد مشکلات و پریشانیوں کا شکار تھی، والد صاحب شوگر کے مریض تھے، بھائی شادی کے بعد الگ ہوگئے تھے، دو چھوٹی بہنیں خطولی کے ساتھ تھیں، زندگی کسی اذیت سے کم نہیں تھی،  ایک ٹائم کھانے کو ملتا تھا تو دو وقت کے فاقے ہوتے تھے، کبھی کپڑے سی کر، تو کبھی ٹوکریاں بنا کر،  زندگی بس یونہی بسر ہورہی تھی، آنکھوں میں آنسو رہتے تھے، غم بیان کرتے تو کس سے، دکھ بانٹتے تو کیسے، کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کیا جائے، گھر کی تمام تر ذمے داریوں کا بوجھ خطولی کے ناتواں کاندھوں پر تھا، باپ کی بیماری  اور بہنوں کا ساتھ جنکے ہاتھ بھی پیلے کرنے تھے،  اسے ہر وقت فکر و پریشانی میں مبتلا رکھتے  تھے، خطولی کم ہمت نہیں تھی اسکے حوصلے بلند اور ارادے مظبوط تھے، حالات جیسے بھی صحیح وہ مقابلہ کررہی تھی، لڑ رہی تھی، شب وروز اپنے اور اپنے گھر والوں کے بہتر مستقبل کے لیے دعائیں مانگ رہی تھی اور پھر خطولی کے آنسو رنگ لے آئے۔  دعا قبول ہو گئی،پیپلز پاورٹی ریڈیکشن پروگرام کی ٹیم خطولی کے گھر پہنچ گئی،  حوصلوں کو جیسے سہارے مل گئے، امیدوں کے ساحل کو کنارے مل گئے،  ضروری کاروائی کی تکمیل کے بعد خطولی کو 50000 روپے بطور بلاسود قرض، فراہم کر دئیے گئے تھے، نہ صرف رقم بلکہ ٹھٹھہ میں پروگرام پر کام کرتی سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن  (سرسو) نے خطولی کو ٹریننگ بھی فراہم کی تھی جو اسکے بہت کام آرہی تھی، خطولی نے پرچون کی دکان قائم کرلی تھی، خوب محنت کی، دن اور رات ایک کردئیے، دکان کا کام اچھاچل رہا تھا، نہ صرف خمیسو سموں بلکہ قریب کے گاؤں کے لوگ بھی دکان پر آنے لگے تھے، منافع اچھا ہونے لگا تھا۔ خطولی نے اپنے والد کا علاج کروانا شروع کردیا تھا جس سے ان کی حالت میں نمایاں تبدیلی آنے لگی تھی،  پہلے گھرکی حالت بہت خستہ تھی، بارشوں میں تو لگتا تھا کہ شاید نام ونشان تک باقی نہ رہے، پھر گھر کا مرمّتی کام ہوا،  کام کیا ہوا کہ گھر کاپورا نقشہ ہی بدل گیا،گاؤں کے سب لوگ دیکھنے آتے اور تعریفیں کرتے نہ تھکتے، بہنوں کی شادی کے سلسلے میں خطولی نے ایک کمیٹی (BC)بھی ڈال لی تھی، گھر میں تینوں وقت کا کھانہ بننے لگا تھا، سب سیر ہو کر کھاتے اور رب کا شکر ادا کرتے، گزرتے وقت کے ساتھ دکان کو بڑھا لیا گیا تھا، روزمرہ  ضروریات کی تقریبا  تمام تر اشیاء دستیاب تھیں، خطولی نے نہایت آسانی سے قرض کی رقم کی ادائیگی بھی کرنا شروع کردی تھی، خطولی کا اپنی زندگی میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سندھ گورنمنٹ کا پیپلز پاورٹی ریڈ یکشن پروگرام کسی معجزے سے کم نہیں، سرسو کی ٹیم نے بھرپور ساتھ نبھایا، غریبوں کا احساس خیال کرنے اور اُنکا  ہاتھ تھامنے پر سندھ گورنمنٹ کے مشکور ہیں۔

سندھ گورنمنٹ کے ساتھ نے،  قادر بخش کی زندگی کو بدل ڈالا!

پیپلز پاورٹی ریڈیکشن پروگرام قادر بخش جیسے نوجوانوں کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں لانے کا موجب بھی بنا ہے، ٹھٹھہ کی یو،سی  بجورا کے گاؤں کارو خاصخیلی کا رہائشی ہے، عمر 28 سال اور پیشے لے لحاظ سے حجام ہے،غربت کا شکار قادر پہلے الجھا،الجھا سا رہتا تھا، مزاج میں چڑچڑاپن نمایاں تھا، لہجے میں چھپی بے بسی آنکھوں میں آنسو لے آیا کرتی تھی، وہ بہت کم بات کیا کرتا تھا،  خاموشی نے دل ودماغ میں اک شور بپا کر رکھا تھا،  یہ سب اس لیے تھا کہ قادر بخش مجبور تھا، کرنا تھا بہت کچھ چاہتا تھا لیکن مالی وسائل کی عدم دستیابی نے اُسکے ہاتھ جکڑے ہوئے تھے، کسی چبوترے پر  یا  پھر  زمین پر بیٹھ کر لوگوں کے بال اور شیو بنانے کے بعد مشکل سے ڈھائی، تین سو  کما  پاتا تھا، قلیل آمدنی نے زندگی کے رنگوں کو بھی کم بلکہ ختم ہی کردیا تھا،   قادر بخش کی والدہ کارو خاصخیلی ویلیج آرگنائزیشن کی رکن ہیں،  بیٹے کی یہ حالت انہیں بے چین کیے رکھتی تھی، بیٹے کی پریشانیاں اُن کی تکلیف بن چکی تھیں، پھر ویلیج آرگنائزیشن  کارو خاصخیلی نے قادر بخش کی والدہ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا،  اُنہیں کمیونٹی انویسٹمنٹ فنڈ کے تحت قرض کی فراہمی کے لیے نامزد کیا گیا، پھر سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن (سرسو) کی جانب سے قادربخش کی والدہ کو 50000 روپے بطور بلاسود قرض فراہم کردیئے گئے، والدہ کی بابت ملنے والی رقم سے قادر بخش نے فوری طور پر اپنے ہی گاؤں میں دکان تلاش کرکے اور اپنے ہنر کو زریعہ معاش بناتے ہوئے حجام کی دکان قائم کرلی۔ قادرمیں ایک نئے جذبے نے سر اُٹھایا تھا، محنت اور شوق نے کمر کس لی تھی، وہ صبح سویرے ہی دکان کھول لیتا سار ا دن دلجمعی سے کام کرتا، دکان پر آنے والے لوگوں کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا، قادر کے لہجے کی تلخی اورارادوں میں چھپی بے بسی نے دم توڑ دیا تھا، خاموشیوں کو بھی زباں مل گئی تھی، اب وہ  باتیں کرنے لگا تھا، خوش تھا،آمدنی میں ہوتا اضافہ زندگی کے مسائل کو کم کرتا چلا جارہا تھا، 1000  سے  1200  روپے روزانہ کی بنیاد پر کما کر وہ  اپنے بوڑھے ماں  باپ کا حقیقی سہارا بن چکا تھا، چھوٹے بھائی بہن اسکول جانے لگے تھے، گھر میں صاف ستھرے برتن،  چارپائیاں،   چادر، دریاں، تکیے،  میز، کرسیاں  چولہا معہ سلینڈر اور کچھ بکریاں بھی خرید لی گئیں تھیں،  قادر کے بھائی بہنوں نے گھر کے کشادہ کچے صحن میں باغبانی شروع کردی تھی، سبزیاں اگتی تو گھر میں پکتیں، پڑوس میں بھیجی جاتیں  اور فروخت بھی ہوجاتیں،  قادر خود بھی صفائی پسند تھا اور اپنے گھر والوں کو بھی صفائی ستھرائی کے طور طریقوں پر عمل کرتا دیکھنا چاہتا تھا اس لیے اس نے ترجیحی بنیادوں پر گھر میں بیت الخلاء  بنوا کر صحتمندانہ  زندگی کے خواب کو پوراکرلیا تھا، سرسو کی معاونت ساتھ تھی اس لیے ہر کام آسان ہوتا چلا گیا، آج قادر بخش اور اسکا خاندان حکومت سندھ کی مخلصانہ کاوشوں کے سبب بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔

کمیونٹی انویسٹمنٹ فنڈ اور گل خاتون،  تبدیل ہوتی زندگی بنی مثال!  

 یو، سی  بجورا  کے گاؤں خمیسو سموں میں رہتی 42 سالہ گل خاتون یقینا  ایک مثال ہیں اُن عورتوں کے لیے جو زندگی کے اونچے نیچے، کٹھن راستوں پر چلتے  ہوئے ہمت ہار جاتی ہیں اور منزل قریب ہونے کے باوجود سفرجاری نہیں رکھتیں،  گل خاتون کو مویشی پالنے کا بچپن سے ہی شوق تھا، گائیں،بھینسیں، بکریاں، مرغیاں  اُنکے گھر میں نہیں تھیں لیکن وہ چاہتی تھیں کہ یہ سب پالے جانے والے جانور اُنکے گھر میں ہوں  جہاں  وہ اُنکا بے حد  خیال رکھیں اور  ان جانوروں سے ملنے والے فوائد بھی حاصل کرسکیں، گل خاتون ایک باہمت اور حوصلہ مند خاتون ہیں لیکن غربت کے  ہاتھوں مجبور بھی، اُنکے تین بچے ہیں، دو بیٹے اور ایک بیٹی،  شوہر  شہر میں سبزی کا ٹھیلا لگاتا ہے جس سے حاصل ہونے والی  آمدنی برائے نام تھی،   پہلے ٹوٹے پھوٹے گھر  کے کسی کونے میں بیٹھی وہ بچوں کے بہتر مستقبل کے بارے ہمہ وقت سوچتی رہتی تھیں، خوراک کی فراہمی، بچوں کا مستقبل، روزمرہ کے اخراجات،  یہ تمام باتیں صبح وشام اور دن و رات انکے ذہن میں محو گردش رہتیں تھیں،  لیکن انہیں یقین تھا کہ حالات بدلیں گے،  خدا انکی فریاد ضرور سنے گا،  کوئی نہ کوئی سبب ضرور پیدا ہوگا جو  زندگی بدل دے گا۔۔۔  اور پھر ایسا ہی ہوا!!  پیپلز پاورٹی ریڈیکشن پروگرام کے کمیونٹی انویسٹمنٹ فنڈ کے تحت گل خاتون کو 20000  ملے،  اس رقم سے انہوں نے ایک گائے کا  بچہ خرید ا،  اسے پالا  پوسا،  اسکا خیال رکھا، جب بڑا ہوا تو اسے   80000   روپے میں بیچ دیا،  پھر  11000  سے بکری اور بکرا خریدا  اور باقی کی رقم سے نصف تو جمع کرلی اورآدھی رقم سے گھر کی دیواروں کو پکا کروایا،  واش روم بنوایا اور سولر پینل بھی خرید لیا جس سے گھر میں بسے اندھیروں کا خاتمہ ہوا، بچوں کے چہرے بھی خوشی سے جگمگا اٹھے تھے، شوہر نے بازار میں ایک دکان کرائے پر لے لی اور باقاعدہ سبزی فروخت کا کام شروع کردیاتھا۔ گل خاتون اور انکی فیملی کے دن بدلنے لگے تھے، منزل کی جانب سفر میں تیزی آگئی تھی، سرسو کی ٹیم اُن سے مسلسل رابطے میں تھی اور اُن کی رہنمائی کر رہی تھی، گل خاتون کا مویشی پالنے کا شوق بھی پورا ہو رہا تھا، عنقریب کیے جانے والے کاموں پر بات کرتے ہوئے گل خاتون کا کہنا تھا کہ اب وہ ایک اور گائے کا بچہ لیں گی، مرغیاں اور بطخیں بھی، اُنکا ایک بھینس لینے کا بھی ارادہ ہے،  سندھ گورنمنٹ کی بابت ملنے والی سپورٹ سے اب زندگی میں آنے والی تبدیلیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا، گل خاتون اپنے قدموں پر پوری توانائیوں کے ساتھ کھڑی تھیں، اُنکے ذرائع آمدن مستحکم اور مستقبل کے لیے کی جانے والی پلاننگ موئثر تھی۔

 ****

بلاشبہ دیہی خواتین کی ترقی، خوشحالی اور اُنکو متحرک اور منظم کرنے میں کمیونٹی آرگنائزیشن، ویلیج آرگنائزیشن اور لوکل سپورٹ آرگنائزیشن بنیادی کردار ادا کررہی ہیں، دیہی گھرانوں کے وسیع تر مفاد میں ان تنظیموں کا قائم و دائم اور فعال رہنا ازحد ضروری ہے، اس ضمن میں حکومت سندھ کا کردار اہمیت کا حامل ہے  بالخصوص  لوکل سپورٹ آرگنائزیشن کو طویل مدتی معاونت         (Longer Time Famework Support) کی فراہمی ناگزیر ہے،  حکومت سندھ کی جانب سے فراہم کردہ معاونت کی بدولت نہ صرف مقامی سطح پرلوکل سپورٹ آرگنائزیشن اور متعلقہ حکومتی اداروں کے مابین بہتر اور مضبوط روابط قائم ہونگے بلکہ مجموعی اشتراک سے کیے جانے والے ترقیاتی کام دیہی گھرانوں کی خوشحالی کا ضامن بنیں گے۔