Friday, May 10, 2024

پرویز مشرف کے وکلاء نے خصوصی عدالت کا فیصلہ مسترد کردیا

پرویز مشرف کے وکلاء نے خصوصی عدالت کا فیصلہ مسترد کردیا
December 17, 2019
لاہور (92 نیوز) پرویز مشرف کے وکلاء نے خصوصی عدالت کا فیصلہ مسترد کردیا۔ سابق صدر کے وکلا ءکا کہنا تھا کہ عدالت میں دلائل کی اجازت نہیں دی جا رہی، اچانک فیصلہ سنا دیا جائے تو بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے، آج تک کسی ملزم کو غیرموجودگی میں سزا نہیں سنائی گئی۔ پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ جنرل پرویزمشرف کیس کا فیصلہ آچکا ہے، خصوصی عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائی گئی۔ قانونی تقاضے پورے کیے بغیر عجلت میں فیصلہ سنایا گیا۔ شفاف ٹرائل اور موقع سابق صدر مشرف کو نہیں ملا۔ وکیل سلمان صفد رنے کہا اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہم نے اپنی پٹیشن دائر کی اور یہ فیصلہ تین ہفتے پہلے ہمارے حق میں آیا۔ ہائیکورٹ نے بھی فیئر ٹرائل کا حکم دیا تھا، فیئر ٹرائل میں بہت سی خامیاں ہیں، مشرف کیس کا فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو کیس سے بھی خراب فیصلہ آیا ہے، پاکستان میں اس طرح کی کوئی مثال اس سے پہلے نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ سابق صدر مشرف کی طبیعت ناساز ہے، اب یہ فیصلہ عوام پر ہے، سابق صدر انتہائی نگہداشت میں ہیں، ان کی بیماری کی وجہ سے وہ اکثر اسپتال میں رہتے ہیں۔ مشرف کی غیر حاضری میں کیس کا فیصلہ سنایا گیا اور وکلاء تک کو نہیں سنا گیا۔ یہ فیصلہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر سوالیہ نشان ہے جس طرح ایک سابق صدر کو سزا سنائی گئی آج دن تک کسی شخص کو غیر موجودگی میں سزا نہیں سنائی گئی۔ 342 کا بیان ریکارڈ نہیں کرایا گیا یہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ وکیل پرویز مشرف کا کہنا تھا سابق دور میں وزارت داخلہ کے ذریعے استغاثہ وفاقی کابینہ کی منظوری کے بنا جان بوجھ کر دائر کیا گیا، کبھی مشرف کو اشتہاری اور کبھی انکا ٹرائل ریزیوم کردیا جاتا رہا، مجھے بھی کبھی وکیل مانا جاتا، کبھی نہیں اگر موقع دے کر سزا دی جاتی تو پریس کانفرنس کا موقع نہ آتا۔ ہمارے تحفظات یہ ہیں کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم کے باوجود 342 کا بیان ریکارڈ نہیں کرانے دیا گیا، دفاع کا حق بھی سلب کیا گیا۔ وکیل سلمان صفدر کہتے ہیں اس وقت کے وزیراعظم شوکت عزیز اور عبدالحمید ڈوگر کو کیوں ملزم نہیں بنایا گیا؟ یہ درخواست بھی مسترد کردی گئی تمام شفاف قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے پیرانہ سالی میں پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے، ابھی تفصیلی فیصلہ نہیں آیا، جیسے ہی آئے گا تو اس کو چیلنج کیا جائے گا۔ آئین شکنی کوئی معمولی جرم نہیں ہے، اس حوالے سے بہت سے قانونی پہلوئوں کو دیکھنا ہوتا ہے، سکائپ کے بیان کا آپشن ضرور دیا گیا مگر یہ ممکن نہیں تھا۔ تاریخ میں پہلی بار اس طرح کا فیصلہ عجلت میں دیا گیا۔