Thursday, May 9, 2024

پرویز مشرف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ آج جاری کیا جائے گا

پرویز مشرف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ آج جاری کیا جائے گا
December 18, 2019
 اسلام آباد (92 نیوز) پرویز مشرف سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ آج جاری کیا جائے گا۔ گزشتہ روز سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے سابق صدر و جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت کا حکم سنا دیا تھا ۔عدالت نے قرار دیا تھا کہ پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین کو پامال کیا ۔ عدالت نے مختصر فیصلہ جاری کیا تھا اور کہا تھا ۔ تین نومبر 2007 ء کو  پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور چیف جسٹس آف پاکستان کو معزول کر دیا، اس کے بعد احتجاج کی لہر چل پڑی ۔  پہلے بے نظیر بھٹو واپس آئیں پھر 25 نومبر 2007ء کو نوازشریف بھی وطن پہنچے۔ صدارت سے استعفے کے بعد اپریل 2009ء کو سابق صدر نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کی لیکن پھر 24مارچ 2013ء کو واپس آئے اور الیکشن لڑنے کا اعلان کر دیا۔ اٹھارہ اپریل 2013ء کو پرویز مشرف اسلام آباد ہائیکورٹ سے اس وقت روانہ ہو گئے جب عدالت نے 2007ء میں ججز نظربندی کیس میں ان کی ضمانت منسوخ کرنے کا حکم جاری کیا تاہم بعد میں انہیں نظربند کر دیا گیا۔ بیس اگست2013ء کو سابق صدر پر بینظیر بھٹو قتل میں فرد جرم عائد کر دی گئی ،  چار نومبر 2013ء کو عدالت نے لال مسجد کیس میں ضمانت منظور کی اور گھر میں نظربندی بھی ختم کرنے کا حکم سنایا۔ سترہ نومبر 2013ء کو حکومت نے پرویز مشرف پر سنگین غداری کیس چلانے کا اعلان کیا ۔ اٹھائیس نومبر 2015 کو سابق صدر کی جانب سے غداری کیس کی از سر نو تفتیش کے لئے جے آئی ٹی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ۔ بائیس دسمبر 2015 کو سنگین غداری کیس میں وفاقی تحقیقاتی ادارے  کی خصوصی ٹیم نے سابق صدر مشرف کا بیان ریکارڈ  کیا ، سابق صدر سے ملک میں ایمر جنسی کے نفاذ سے متعلق سوال سمیت دیگر اہم سوالات کیے گئے۔ پندرہ دسمبر 2015 کو سنگین غداری کیس میں ایف آئی اے کو وزارت قانون و انصاف سے پرویز مشرف کے خلاف اہم ریکارڈ ملا ، حاصل ہونے والے ریکارڈ میں پی سی او کے تحت حلف لینے والے ججوں کی تقرری اور اعلی عدالتوں کے ججوں کی معزولی کے حکم نامے شامل تھے ۔ اٹھارہ دسمبر 2015 کو  سنگین غداری کیس میں ایف آئی اے نے مرکزی ملزم سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف  کا از سر نو بیان قلمبند کرنے کا فیصلہ  کیا ۔  خصوصی عدالت میں جمع کرائی گئی پیشرفت رپورٹ کے مطابق 22 دسمبر کو تفتیشی ٹیم پرویز مشرف کا بیان قلمبند کرے گی ۔ مارچ 2016 کو پرویز مشرف علاج کی غرض سے دبئی چلے گئے اور پھر لوٹ کر نہ آئے ،8 اپریل 2016 کو  خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے بیرون ملک جانے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دئیے۔ خصوصی عدالت میں دوران سماعت جب فاضل جج نے استفسار کیا کہ پرویز مشرف کہاں ہیں اور وہ عدالت میں پیش کیوں نہیں ہوئے تو ان کے وکیل اختر شاہ نے مؤقف اپنایا کہ وہ حکومتی اجازت سے علاج کی غرض کے لئے  بیرون ملک روانہ ہو گئے ہیں جس پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا انہوں نے عدالت سے کوئی اجازت لی۔ کیا ایسا کوئی قانون موجود ہے کہ دہشت گردی کے زیرسماعت مقدمے کا ملزم عدالت کو بتائے بغیر بیرون ملک جا سکتا ہے۔ فاضل جج نے پرویز مشرف کی استثنیٰ کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردئیے اور پولیس کو حکم دیا کہ وارنٹ کی تعمیل کرتے ہوئے انہیں گرفتار کر کے 22اپریل تک عدالت میں پیش کیا جائے۔ دس نومبر 2015 کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سنگین غداری کیس میں دیگر افراد کو نامزد کرنے سے متعلق خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا ،جس کے بعد پرویز مشرف کیخلاف زیر التوا ٹرائل کا دوبارہ آغاز ہو ا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے خصوصی عدالت کے 21 نومبر 2014 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس کا ٹرائل جاری رکھنے کا حکم دیا۔ 26 فروری 2016 کو سپریم کورٹ نے پرویز مشرف غداری کیس میں تین دیگر ملزمان کو شامل کرنے کا خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا ، جسٹس آصف سعید کھوسہ  کے تحریر کردہ  فیصلے میں کہا گیا ہے کہ وفاق بھی پرویز مشرف کو ایمرجنسی کا اکیلے ذمہ دار سمجھتا ہے۔ خصوصی عدالت کے قوانین کے تحت خصوصی عدالت کو اپنی کارروائی جاری رکھنے کے لیے کسی نئی تفتیش کے انتظار کی ضرورت نہیں۔ امید کرتے ہیں کہ خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری مقدمے کی کارروائی جلد نمٹائے گی۔ آٹھ مارچ 2016 کو   خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں بیان ریکارڈ کروانے کیلئے پرویز مشرف کو 31 مارچ کو طلب کر لیا ، بیماری کے باعث پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی استدعا بھی مسترد کر دی۔ وکیل استغاثہ اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ طریقہ کار کے مطابق سماعت روزانہ کی بنیاد پر ہونی چاہئے۔ خصوصی عدالت پابند ہے کہ وہ بتائے کہ سماعت کیوں ملتوی کر رہی ہے۔ خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے بیان ریکارڈ کروانے کیلئے 25مارچ کو طلب کر لیا۔ عدالت نے حکم دیا ہے کہ پرویز مشرف کا سیکشن 342 کے تحت بیان ریکارڈ کیا جائیگا۔ انیس اپریل 2016 کو  عدالت نے ملزم پرویز مشرف کو 11 مئی کو گرفتار کرکے عدالت کے روبرو پیش کرنے کا حکم  دیا ، پرویز مشرف کی 25 لاکھ کی ضمانت بھی ضبط کرلی۔ عدالت نے افتخار چودھری کی پارٹی کے رہنما ایڈوکیٹ توفیق آصف کی کیس میں فریق بننے کی درخواست یہ کہتے ہوئے مسترد کردی کہ سنگین غداری کیس میں صرف ریاست شکایت کنندہ ہو سکتی ہے۔پرویزمشرف کے ضامن راشد قریشی کو ضمانتی مچلکے واپس لینے کی درخواست بھی  خارج  کی گئی ، ریمارکس دیے کہ  یہ ضامن کی ذمہ داری تھی کہ وہ پرویز مشرف کی عدالت میں حاضری یقینی بناتا۔ خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیے کہ پرویز مشرف کے باہر جانے کا ایشو نہیں بس ملزم عدالت کے سامنے سماعت پر پیش ضرور ہوں ،  عدالت نے پرویز مشرف کی جانب سے 14 ہفتوں تک حاضری سے استثنا کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کئے ۔ گیارہ مئی 2016 کو خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو  اشتہاری قرار دے دیا ، ایک ماہ میں گرفتار کر کے پیش کرنے کا بھی حکم دیا گیا ۔ خصوصی عدالت نے حکم دیا کہ  اردو اور انگریزی اخبارات میں اشتہارات دیے جائیں کہ ملزم مفرور  ہے ، عدالت نے ایف آئی اے کو حکم دیا کہ وہ ملزم کو گرفتار کرنے کیلئے فوری اقداما ت کرے۔ بائیس مئی 2016 کو  سابق صدر پرویز مشرف کو اشتہاری قرار دیے جانے کا حکم نامہ ان کی رہائش گاہ چک شہزاد فارم ہاوس پر چسپاں  کیا گیا، انہیں  سنگین غداری کیس میں 12 جولائی کو خصوصی عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا ۔ انیس جولائی 2016 کو خصوصی عدالت نے  سنگین غداری کیس میں  سابق صدر  پرویزمشرف کی جائیداد ضبطی اور بینک اکاونٹس منجمد کرنے کا حکم دیا۔ خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس آئندہ سماعت سے روزانہ کی بنیاد پر چلانے کا فیصلہ کیا۔ آٹھ مارچ 2018 کو  خصوصی عدالت نے پرویز مشرف سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کی گرفتاری اور جائیداد ضبطی کیلئے وزارت داخلہ کو ہدایت  دی  ۔  خصوصی عدالت نے دفتر خارجہ اور ایف آئی اے حکام سے یو اے ای کے ساتھ میوچل لیگل اسسٹنس کا معاہدہ بھی طلب کیا۔ سولہ مارچ 2018 کو سابق صدر پرویز مشرف کی گرفتاری کے لیے وزارت داخلہ کو انٹرپول سے رابطہ کرنے کی ہدایت جاری  کی گئی  ، عدالت نے پرویز مشرف کا شناختی کارڈ ، پاسپورٹ منسوخ کرنے اور وزارت داخلہ کو ملزم کی گرفتاری کے لیے انٹرپول سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی تھی ۔ انتیس مارچ 2018 کو  چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس یحیٰی آفریدی کی معذرت کے بعد سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے خلاف سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا ۔ عدالتی حکم نامے میں بتایا گیا کہ سابق صدر پرویز مشرف کی جانب سے جسٹس یحیٰ آفریدی پر جانبداری کا الزام لگایا گیا تھا جس میں مؤقف پیش کیا گیا کہ جسٹس یحیٰ آفریدی سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار چوہدری کے وکیل رہ چکے ہیں ۔ حکم نامے کے مطابق جسٹس یحیٰ آفریدی کبھی بھی سابق چیف جسٹس کے وکیل نہیں رہے بلکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے 3 نومبر کے اقدام کے خلاف بطور وکیل درخواست دائر کی تھی تاہم انصاف کے تقاضوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے جسٹس یحییٰ آفریدی نے بینچ سے علیحدگی اختیار کی ۔ انتیس اگست 2018 کو  خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت  کے دوران  انٹرپول کی طرف سے دیا گیا جواب عدالت میں داخل کرنے کا حکم جاری کیا گیا ۔ جسٹس یاور علی نے پرویزمشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کے دوران استفسار کیا کہ کیا 342 کے بیان کے بغیر کاروائی آگے بڑھائی جاسکتی ہے   ، آئندہ سماعت پر اگر مشرف نہیں آتے تو بتایا جائے کہ کیس کو کیسے حتمی نتیجے تک پہنچایا جائے ۔ دوران سماعت سیکرٹری داخلہ نے یوسف نسیم کہا ہم نے پرویز مشرف کو لانے کیلئے انٹرپول سے درخواست کی تھی  جسے یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا تھا کہ انٹرپول کے قانونی دائرہ کار میں سنگین غداری کیس نہیں آتا ۔ عدالت نے انٹرپول کی طرف سے دیا گیا جواب عدالت میں داخل کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 10 ستمبر تک ملتوی کر دی ۔ دس ستمبر 2018  کو خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس آئندہ سماعت سے روزانہ کی بنیاد پر چلانے کا فیصلہ دیا ،  لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس یاور علی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے سماعت کی ،  سماعت میں ریمارکس دئیے کہ کیس کو منطقی انجام تک بھی پہنچانا ہے، ایکطرف یا دوسری طرف فیصلہ تو کرنا ہے۔ چیف جسٹس یاور علی نے استفسار کیا، کیا ملزم پرویز مشرف کا بیان سکائپ پر ریکارڈ کیا جاسکتا ہے، اگر بیان ریکارڈ نہیں ہوتا تو پراسیکویشن کے دلائل سن کر معاملہ اگے بڑھائیں گے۔ جسٹس یاور علی نے ریمارکس دئیے استغاثہ اس مقدمہ سے الگ ہوچکا، پراسیکیویشن ٹیم کے ممبران کورٹ آفیسر بھی ہیں، آئندہ سماعت پر عدالت کی معاونت کریں، کیا وزارت داخلہ انٹرپول کے علاوہ ملزم کو عدالت میں پیش نہیں کرسکتی، وزارت داخلہ تحریری جواب دے، ملزم کا سیکشن 342 کا بیان ریکارڈ ہونا ہے۔ انیس نومبر 2018  کو  اسلام آباد ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کی وطن واپسی سے متعلق سفری تفصیلات طلب کیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بنچ نے پرویز مشرف کا بطور ملزم بیان ریکارڈ کرنے کے لیے کمیشن کی تشکیل کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔ عدالت نے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے بہتر ہے آپ دبئی جائیں اور پرویز مشرف کو ساتھ لے کر آئیں ۔  پرویز مشرف کو مکمل سیکورٹی فراہم کی جائے گی۔ وکیل پرویز مشرف کا کہنا تھا خصوصی عدالت سے حکم نامے حاصل کرنے ہیں مگر خصوصی عدالت فی الحال غیر فعال ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پرویز مشرف کے وکیل کو سابق صدر کی سفری تفصیلات عدالت میں پیش کرنے کا حکم سنایا۔ پچیس مارچ 2019 کو چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سنگین غداری کیس کی سماعت کی ،  ملزم کے پیش نہ ہونے پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ کوئی قانون سے بالا تر نہیں ہے ، تین نومبر 2007  کی یمرجنسی کا ٹرائل ہر صورت ہوگا۔س مقدمے میں ملزم کے ساتھ ڈیل ہماری تاریخ کا الگ ہی باب ہے ،عدالت جاتے جاتے گاڑیاں مڑجاتی ہیں یہ انصاف نہیں جب ملزم کا دل چاہے وہ آئے جب نہیں تو نہ آئے۔ کوئی ملزم عدالت کو یرغمال یا ہائی جیک نہیں کرسکتا۔ آٹھ مارچ 2019 کو سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت سے پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس  کی رپورٹ طلب  کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کئے ،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ کوئی ملزم چھوٹا بڑا نہیں ہوتا،سب برابر ہوتے ہیں، مشرف کو واپس لانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ نئی خصوصی عدالت تشکیل پانے کے باوجود مشرف کا ٹرائل کیوں رکا ہوا ہے؟،صوصی عدالت پرویز مشرف سے پوچھے جانے والے ہر سوال کے آگے ناں لکھ کر کارروائی آگے بڑھائے۔ 28 مارچ2019   عدالت نے پرویز مشرف کو 2 مئی کو پیش ہونے کا حکم دیا۔پرویز مشرف کے وکیل صفدر علی نے خصوصی عدالت کو  بتایا کہ  ان کے موکل 13 مئی کو عدالت آنا چاہتے ہیں ، ساتھ ہی بریت کی درخواست دائر کی اور موقف اختیار کیا سنگین غداری کا مقدمہ وفاقی حکومت دائر کر سکتی ہے ، وفاقی حکومت کا مطلب وفاقی کابینہ ہے وزارت داخلہ نہیں۔ جسٹس طاہر صفدر نے ریمارکس دئیے کہ 13 مئی کو ماہ رمضان چل رہا ہوگا، ججز کی دستیابی مشکل ہوگی ، مشرف نے پیش ہونا ہے تو دو مئی کو آجائیں  ، اور اگر پیش نہ ہوئے تو عدالت بیان ریکارڈ کرنے سے متعلق مناسب حکم دے گی۔ یکم اپریل 2019 کو سپریم کورٹ نے سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کی غیر موجودگی میں بھی ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیا ،چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے فیصلہ سنایا اور قرار دیا کہ پرویز مشرف کی کسی بھی سچی، جھوٹی میڈیکل رپورٹ کو قبول نہیں کیا جائے گا، مفرور ملزم کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ملزم اگر پیش نہیں ہوتا تو سیکشن 342 کے تحت بیان ریکارڈ کرانے کی سہولت بھی نہیں ہوگی ، جان بوجھ کر غیر حاضری کے بعد کارروائی غیر حاضری کے زمرے میں تصور نہیں ہوگی۔ سابق صدر کے وکیل سلمان صفدر نے اپنے موکل کی واپسی کیلئے ذاتی ضمانت سے انکار کردیا  ، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ  ملزم کی عدم موجودگی میں ٹرائل غیر آئینی ہوتا ہے ، لیکن ملزم جان بوجھ کر پیش نہ ہو تو اس کو فائدہ نہیں اٹھانے دے سکتے، سنگین غداری کوئی معمولی جرم نہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ سابق صدر کے پیش نہ ہونے پر ان کا دفاع کا حق ختم ہو جائے گا، مشرف دو مئی کو پیش نہیں ہوتے تو خصوصی عدالت استغاثہ کو سن کر فیصلہ کرے۔سپریم کورٹ نے مشرف کی غیر موجودگی میں بھی ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔ دو مئی 2019 کو  خصوصی عدالت نے  پرویزمشرف کے کیس کی  سماعت میں التوا کی درخواست منظور کی ،   جسٹس طاہرہ صفدر کی سربراہی میں خصوصی عدالت کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ ملزم کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے آگاہ کیا کہ انکے موکل بہت علیل ہیں، جسمانی حالت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ چل پھر نہیں سکتے، بول بھی نہیں پا رہے، پاکستان نہ آنے پر شرمندہ اور معذرت خواہ ہیں۔ پرویز مشرف کے وکیل نے کیس ملتوی کرنے کی استدعا کر دی اور دلائل دئیے کہ ملزم کے خلاف مقدمہ 2007 کا ہے ،  وہ 2013 میں وطن واپس ائے، 2014 میں فرد جرم عائد کی گئی۔ دو سال تین ماہ تک پاکستان میں رہے لیکن استغاثہ اپنا کیس ثابت نہ کر سکا۔ میں اپنے موکل کی معاونت کے بغیر عدالت کے سوالات کا جواب نہیں دے سکتا۔ مشرف کو پیش ہونے کیلئے ایک اور موقع دینے کی بھی استدعا کر دی۔ استغاثہ نے کیس ملتوی کرنے درخواست پر اعتراض کیا تو جسٹس طاہرہ صفدر نے استفسار کیا کہ التواء کی درخواست کے ساتھ میڈیکل رپورٹ بھی لگائی گئی ہے جس پر وکیل استغاثہ نے کہا میڈیکل رپورٹ کے مصدقہ ہونے پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔ عدالت نے ملزم کی التواء کی درخواست منظور کر لی اور بریت کی درخواست پر وفاق کو نوٹس جاری کر دیا۔ سماعت 12 جون کو دوبارہ ہو گی۔ 12 جون 2019 کو  خصوصی عدالت نے  پرویزمشرف کا حق دفاع ختم کر دیا  ،  خصوصی عدالت نے ریمارکس دیے کہ مفرورملزم وکیل کی خدمات بھی حاصل نہیں کر سکتا۔ اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے   مشرف خود کو قانون کے حوالے کریں تو اپنی مرضی کا وکیل کر سکتے ہیں۔ خصوصی عدالت نے قرار دیا کہ ملزم کی بیماری کے باعث ٹرائل ملتوی نہیں کیا جا سکتا،  سپریم کورٹ کے حکم کے بعد مشرف کو مزید موقع نہیں دے سکتے۔ چوبیس اکتوبر 2019 کو حکومت نے استغاثہ کی پوری ٹیم فارغ کر دی ، وٹیفکیشن کے مطابق 22 ارکان  کو  ڈی نوٹی فائی  کیا گیا ہے۔ ان ارکان میں  10  رکنی پراسیکیوشن ٹیم ، 11 رکنی  آئینی  ٹیم  کے ممبران  اور پراسیکیوشن ٹیم کے ریسرچ اسسٹنٹ   شامل  ہیں۔ انیس نومبر 2019 کو سابق صدر پرویز مشرف کیخلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا جسے 28 نومبر کو سنایے جانے کا کہا گیا ۔ تئیس نومبر 2019 کو  پرویزمشرف نے خصوصی عدالت کے فیصلہ محفوظ کرنے کیخلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا ، مؤقف اپنایا کہ بیماری کے باعث بیرون ملک زیرعلاج ہوں۔ پچیس نومبر 2019 کو  وفاقی حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف خصوصی عدالت کا فیصلہ روکنے کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ۔ وفاقی وزارت داخلہ نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ پرویز مشرف کو صفائی کا موقع ملنے تک خصوصی عدالت کو کارروائی سے روکا جائے، حکومت نے خصوصی عدالت کی تشکیل پر بھی اعتراض کردیا۔ 26 نومبر 2019 کو  اسلام آباد ہائیکورٹ میں  سنگین غداری کیس کا فیصلہ روکنے کی درخواستوں پر سماعت کے دوران سابق صدر  کے وکیل کو دلائل سے روک دیا  ،   اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر امن اللہ نے ریمارکس دئیے کہ پرویز مشرف اشتہاری ملزم ہیں ان کی درخواست کیسے سن سکتے ہیں۔ اٹھائیس نومبر 2019 کو  اسلام آباد کی خصوصی عدالت میں  کیس کی سماعت  ہوئی ،  پرویز مشرف کے سرکاری وکیل کے تحریری جواب جمع نہ کرانے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا ۔ رویز مشرف کے وکیل نے  موقف اپنایا کہ ہم نے بریت کی درخواست دائر کر رکھی ہے  جس پر جسٹس وقار احمد سیٹھ نے ریمارکس دیے کہ  آپ نے ہمارے احکامات نہیں پڑھے ، ہائیکورٹ کے فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے ، ہائیکورٹ نے  آپ کو5 دسمبر تک پراسیکیوشن تعینات کرنے کا حکم دیا ہے ، پانچ دسمبر کے بعد  ہم آپ کو مزید وقت نہیں دیں گے ۔ چار دسمبر 2019  کو سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس میں علی ضیاء باجوہ کو حکومتی وکیل مقرر کیا گیا۔ پانچ دسمبر 2019 کو سنگین غداری کیس  میں نئی پراسیکیویشن ٹیم خصوصی عدالت میں پیش ہوئی  جسے تیاری کیلئے 15 دن کا وقت دینے کی استدعا کی تو عدالت نے منظور کرلی گئی ۔ 14 دسمبر 2019 کو  سابق صدرو جنرل (ر) پرویز مشرف کی جانب سے خصوصی عدالت کی تشکیل لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج  کی گئی  ، درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ مشرف کے خلاف سماعت کرنے والی خصوصی عدالت کی تشکیل غیر آئینی ہے ۔ پرویز مشرف کے وکیل نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنی صوابدید پر خصوصی عدالت قائم کی جو کہ غیر آئینی ہے ۔