Friday, April 26, 2024

پاکستان پڑوسیوں سے پُرامن تعلقات کا خواہاں ہے، وزیر اعظم

پاکستان پڑوسیوں سے پُرامن تعلقات کا خواہاں ہے، وزیر اعظم
September 26, 2020
اسلام آباد (92 نیوز) وزیر اعظم عمران خان نے مسئلہ کشمیر پھر اقوام متحدہ میں اٹھا دیا، عالمی برادری سے کشمیریوں پر مظالم رکوانے، بھارتی مظالم کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا، بھارت میں اقلیتوں کی تطہیر کا مسئلہ بھی اٹھا دیا، کہا پاکستان عالمی اور علاقائی امن اور پڑوسیوں سے پُرامن تعلقات کا خواہاں ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے ویڈیو لنک خطاب میں کہا کہ ریاست مدینہ کا مقصد پورا کرنے کے لئے پاکستان میں امن اور استحکام چاہیے، اقوام متحدہ کی 75ویں سالگرہ انتہائی اہم ہے، ہم اس موقع پر امن استحکام پرامن ہمسائیگی کے مقصد کو حاصل کرسکتے ہیں۔ کہا کہ مسئلہ کشمیر پھر اقوام متحدہ میں اٹھائیں گے، انہوں نے عالمی برادری سے کشمیریوں پر مظالم رکوانے کی اپیل کردی۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان خطے میں امن اور استحکام کا خواہاں ہے، ہمیں کثیر الجہتی اشتراک سے مسائل کو حل کرنا ہوگا، بین الاقوامی اصولوں کے تحت مسائل سے نمٹنے کے لیے اکٹھا ہونا ہوگا۔ مخالف طاقتوں کے درمیان اسلحہ کی دوڑ جاری ہے۔ پاکستانی حکومت کی تمام پالیسیوں کا مقصد شہریوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انسانیت اس وقت سب سے زیادہ خطرے میں ہے اتنی جنگ عظیم اول اور دوئم میں بھی نہیں تھی، فوجی قبضے اور توسیع پسندانہ اقدامات سے حق خود ارادیت کو دبایا جا رہا ہے۔ ایٹمی جنگ کے خطرات ماحولیاتی تبدیلی اور مطلق العنانیت جیسے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ دنیا میں جب تک ہرشخص محفوظ نہیں، تب تک کوئی محفوظ نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ شروع شروع میں سمارٹ لاک ڈاون کو سخت تنقید کانشانہ بنایا گیا، حکومت نے سخت معاشی حالات کے باوجود 8 ارب ڈالر کا ریلیف پیکیج دیا۔ عوام کو بھوک سے مرنے سے بچانے کے لئے ہم نے اسمارٹ لاک ڈاؤن لگایا، ہم نے نہ صرف وائرس کا پھیلاؤ روکا بلکہ اپنی معیشت کو بھی استحکام بخشا۔ آج پاکستان کا کورونا کے خلاف اقدامات کو کامیابی کی کہانیوں کے طور پر بیان کئے جاتے ہیں۔ ہم اب بھی کورونا کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں، ترقی پذیر ملکوں کی معاشی مدد کے لیے قرضوں میں ریلیف کارگر طریقہ ہے۔ امیرملکوں نے کورونا سے نمٹنے کے لیے 10کھرب ڈالر مختص کیے، زرمبادلہ کے نقصان سے کرنسی کی قدر میں کمی، مہنگائی اور غربت بڑھی ہے۔ ہماری تمام پالیسیاں عوام کی بہتری کیلئے ہیں پاکستان عالمی اور علاقائی امن اور پڑوسیوں سے پر امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ میں وولکن اوسکر کو جنرل اسمبلی کا 75واں صدر منتخب ہونے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ وزیراعظم بولے کہ چوری شدہ وسائل کی واپسی تقریبا ناممکن ہے، منی لانڈرنگ کرنے والے عناصر کی رسائی بہترین وکلاء تک ہے، امیرملک منی لانڈرنگ کرنے والوں کو تحفظ دے کر انصاف کی بات نہیں کرسکتے، جنرل اسمبلی کو غیرقانونی رقم کی منتقلی کی واپسی کے لیے موثر نظام ترتیب دینا چاہئے۔ امیر ملکوں میں اس مجرمانہ سرگرمی کو روکنے کیلئے سیاسی عزم کی کمی ہے، جنرل اسمبلی کو غیر قانونی مالیاتی منتقلی اور لوٹی گئی رقم کی واپسی کیلئے موثر قانونی فریم ورک تشکیل دینا چاہیے۔ لوٹی ہوئی رقم کو واپس غریب ممالک کو لوٹانے کے لیے فوری اقدامات ہونے چاہئیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی گزشتہ تقریر میں ترقی پزیر ممالک کے معاشی مسائل کا ذکر کیا تھا، آزادی رائے کے نام پر مسلمانوں کی دل آزاری کی جارہی ہے، غریب ممالک سے پیسہ کرپشن کے ذریعے امیرممالک پہنچ جاتا ہے، اگر اسے قابو نہ کیا گیا تو دنیا میں غریب اور امیر کے درمیان فرق بڑھے گا۔ عمران خان نے کہا کہ پیرس معاہدے پر عملدرآمد انتہائی ضروری ہے، پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھا رہے ہیں، ہماری حکومت نے تین سال میں دس ملین درخت لگانے کی مہم شروع کی ہے، موسمیاتی تبدیلی سے دنیا کو سب سے بڑا خطرہ لاحق ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہماری آنے والی نسلوں کو خطرہ ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے سالانہ 100 ڈالر مختص کرنے کا وعدہ پورا کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے آج بھارت پر آر ایس ایس کا نظریہ غالب ہے، اس وقت دنیا میں بھارت واحد ملک ہے جو اسلام فوبیا کو ہوا دے رہا ہے، انتہا پسند جماعت آر ایس ایس کے بانی نازی جرمنی سے متاثر تھے۔ گاندھی اور نہرو کے اسیکولر بھارت کو مودی نے ہندو راشٹرا میں بدل دیا ہے۔ بھارت میں ہندوؤں کے علاوہ دیگر مذاہب کے لوگوں کو برابر کا شہری نہیں مانا جاتا، 2002ء میں گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا گیا، بھارت میں مسلمانوں پر کورونا وائرس پھیلانے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ آسام میں 20 لاکھ مسلمانوں کو شہریت جیسے مسائل سے دوچار کیا گیا۔  یہ تمام کارروائیاں اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کی سربراہی میں ہوئیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس میں 50 سے زائد مسلمانوں کو زندہ جلا دیا گیا، 72 سال سے بھارت نے غیر قانونی طور پر جموں و کشمیر پر قبضہ کر رکھا ہے۔ 13 ہزار کشمیری نوجوانوں کو مقبوضہ وادی سے بھارتی قابض فوج نے اغوا کرلیا ہے۔ کشمیریوں نوجوانوں کو شہید کرنے کے بعد ان کی لاشیں بھی واپس نہیں کی جا رہی ہیں۔ عالمی برادری کو مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی کی تحقیقات کرنی چاہیے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ مودی حکومت مقبوضہ کشمیر میں جنگی جرائم کی مرتب ہو رہی ہے، 72سال سے بھارت کشمیری عوام کی خواہشات کے برعکس جموں وکشمیر پر ناجائز قابض ہے۔ 80 لاکھ کشمیریوں کو محصور کرنے کے لیے 9 لاکھ فوج تعینات کر رکھی ہے۔ گزشتہ سال 5 اگست سے بھارت نے غیرقانونی طور پر مقبوضہ کشمیر کی حیثیت تبدیل کر دی۔  بھارت نے کشمیریوں کی شناخت ختم کرنے کی کوشش کی۔ بین الاقوامی برادری لازمی طور پر ان سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔ کہا کہ پاکستانی حکومت اور عوام کشمیریوں کی حق خود ارادیت کے لیے کوششوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم نے عالمی برادری کو جھوٹے فلیگ شپ آپریشن سمیت دیگر کارروائیوں سے آگاہ رکھا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں میرے والدین نو آبادیاتی بھارت میں پیدا ہوئے تھے، میں اس پہلی نسل سے ہوں جو آزاد پاکستان میں پروان چڑھی، اگر بھارت کی فسطائیت پسند حکومت نے کوئی کارروائی کی تو پاکستان بھرپور جواب دے گا۔ پاکستان نے ہمیشہ پرامن اقدامات کی حمایت کی ہے، بھارت 5 اگست کے اقدامات واپس لے۔ بھارت فوجی محاصرہ اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کو ختم کرے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میرا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ تنازعہ افغاسنتان کا کوئی فوجی حل نہیں ہے، افغانستان کے مسئلہ کا واحلد حل مذاکرات ہے۔ پاکستان کو اطمینان ہے کہ اس نے اپنے حصے کی ذمہ داری نبھائی۔ افغان پناہ گزینوں کی جلد واپسی بھی سیاسی حل کا حصہ ہونا چاہئے، افغانستان کے اندر اور باہر امن تباہ کرنے والے عناصر کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے، انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین کا مسئلہ آج بھی رِستا ہوا زخم ہے، اقوام متحدہ عالمی تنازعات کے حل کا بنیادی ادارہ ہے، میں سیکرٹری جنرل سے مطالبہ کرتا ہوں کہ عالمی تنازعات کے حل کے لیے آگے بڑھیں۔ انہیں سلگتے ہوئے مسائل کے حل کے لیے سربراہوں کی سطح کے اجلاس بلانے چاہئیں۔ ہم چاہتے ہیں تنازعات سے پاک دنیا وجود میں آئے۔ نئی مخالف طاقتوں کے درمیان اسلحے کی دوڑ چل رہی ہے، بین الاقوامی معاہدوں کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، تنازعات بڑھنے کے ساتھ شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔