Friday, April 26, 2024

پاناما کیس : الزامات کی تصدیق تک سخت فیصلہ نہیں دے سکتے : سپریم کورٹ

پاناما کیس : الزامات کی تصدیق تک سخت فیصلہ نہیں دے سکتے : سپریم کورٹ
November 17, 2016

اسلام آباد (92نیوز) سپریم کورٹ نے پانامالیکس کیس کے تما م فریقین کو صرف متعلقہ دستاویزات پیش کرنے کا حکم دےدیا۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں غلط بیانی کی ہے تو نتائج بھگتنا ہوں گے لیکن جب تک الزامات کی تصدیق نہ ہو سخت فیصلہ نہیں دے سکتے، مطمئن کیا جائے تاکہ کہہ سکیں ”بھائی“ گھر جاو۔

تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے درخواستوں پر سماعت کی۔ عمران خان کے وکیل حامد خان نے اپنے دلائل میں وزیراعظم کا 5 اپریل کو قوم سے خطاب اور 16مئی کو پارلیمنٹ سے خطاب بھی پڑھ کر سنایا۔ حامد خان نے کہا کہ وزیراعظم نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اگر کمیشن نے قصوروار ٹھہرایا تو گھر چلا جاوں گا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ لگتا ہے وزیراعظم نے یہ عہد خود سے کیا ہے قوم سے نہیں جس پر کمرہ عدالت قہقہوں سے گونج اٹھا۔ جسٹس عظمت سعید کاکہنا تھا وزیراعظم نے پہلے بیان میں اثاثوں کی وضاحت پیش کی‘ دوسرا بیان سیاسی لگتا ہے۔ جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم نے خطاب میں غلط بیانی کی تو اس کے قانونی نتائج بھگتنا ہوں گے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب تک فریقین کی جانب سے کوئی اعتراض نہیں آتا تب تک ہم وزیراعظم کے خطابات پر انحصار کر سکتے ہیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کہیں سے تو احتساب کا عمل شروع ہو گا۔ اگر حاکم وقت سے اس کی ابتدا ہو گی تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔

حامد خان نے دلائل میں مزید کہا کہ وزیراعظم کی تقریر کے مطابق ان کے دونوں بیٹے 16 اور 22سال سے ملک سے باہر ہیں لیکن لندن اور سعودی عرب میں اس دوران کیا کاروبار کیا‘ نہیں بتایا۔ کھنڈر فیکٹری کو چلانے کےلئے سرمایہ کہاں سے آیا‘ یہ نہیں بتایا گیا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ثابت کرنا ہوگا کہ وزیراعظم نے کالادھن استعمال کیا۔ ہمیں وہ مواد دیا جائے جس پر کمیشن بنا سکیں۔

جسٹس عظمت سعید کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ عدالت کو مطمئن کیا جائے تاکہ ہم بھی کہہ سکیں کہ بھائی گھر جاو¿ جس کے بعد کیس کی سماعت 30 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔