Sunday, September 8, 2024

وسیم آفتاب اور افتخار عالم بھی ایم کیو ایم سے ہجرت کر گئے

وسیم آفتاب اور افتخار عالم بھی ایم کیو ایم سے ہجرت کر گئے
March 10, 2016
کراچی (92نیوز) کراچی کی سیاست میں ہلچل کا سلسلہ جاری ہے۔ ایم کیو ایم کے مزید دو رہنما وسیم آفتاب اور افتخار عالم پارٹی کو خیرباد کہہ کر مصطفیٰ کمال کی جماعت میں شامل ہو گئے۔ افتخار عالم ایم کیو ایم کے گڑھ نائن زیرو عزیز آباد سے منتخب ایم پی اے اور سافٹ ویئر ڈیزائنر ہیں۔ انہوں نے گرین یونیورسٹی فلوریڈا سے تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔ افتخارعالم چار سال تک یو سی ناظم بھی رہ چکے ہیں جبکہ وسیم آفتاب ممبر رابطہ کمیٹی اور کراچی تنظیمی کمیٹی کے سابق سربرا ہ ہیں۔ کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وسیم آفتاب نے کہا کہ جو اپنے نظریات پرڈٹ جاتے ہیں وہی کامیابی حاصل کرتے ہیں۔ میری تحریکی زندگی 1987ءسے ایم کیوایم سے وابستہ رہی مگر آج صورتحال یہ ہے کہ عام آدمی ایم کیو ایم والوں کو دیکھ کر دوقدم پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ قائد ایم کیو ایم مہاجروں کو مشکلات سے نکالے گا مگر ہزاروں لوگ یہ امید لے کر زمین کی گود میں جا سوئے۔ ہزاروں عورتیں بیوہ ہو گئیں جس کی پوجا کی اور قصیدے پڑھے اسی نے لنکا ڈھا دی۔ انہوں نے کہا ہم پاکستان کے جھنڈے کی حرمت کو دلوں میں بسانا چاہتے ہیں۔ دیواروں پر لکھے تکلیف دہ نعروں کو پاکستان زندہ باد کے نعروں میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ وسیم آفتاب نے انکشاف کیا کہ ایم کیو ایم کارکنوں کی حیثیت قائد کیلئے باتھ روم کے ٹشو پیپر سے زیادہ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک فطرہ اور کھالیں سب سے زیادہ اہم ہیں۔ ان کا نعرہ ہے تمہارا باپ بھی مر جائے تو جماعت کے لیے کھالیں جمع کرو۔ وسیم آفتاب نے متحدہ کے قائد سے اپیل کی کہ خدا کے لیے اس قوم کو اب بخش دو۔ کارکنوں کےلئے صرف ایک ہی پیکج ہے مرنے پر کفن اور تین دن کا کھانا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ کراچی سے رضاکار سالانہ دو ارب روپے سے زائد متحدہ کو فراہم کرتے ہیں۔ متحدہ پر ”را“ کا الزام غلط نہیں لیکن اس کو ثابت کرنابہت مشکل ہے۔ ایم پی اے افتخار عالم نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میں آج اپنے استعفیٰ کا اعلان کرتا ہوں اور ایم کیوایم اور قائد ایم کیوایم کو خیرباد کہتا ہوں۔ انہوں نے کہا خوف کا بت ٹوٹ نہیں پا رہا تھا لیکن اب اپیل کرتے ہیں کہ خوف اور لاشوں کی سیاست کو ختم کیا جائے۔ ایم کیو ایم میں ہمیشہ قائد کی جھوٹی تعریفیں کرنا پڑتی تھیں۔ اس ماحول میں ہمیشہ ملک توڑنے کی باتیں ہوتی رہتی تھیں۔ اگر اب موت بھی آجائے تو پارٹی چھوڑنا برا سودا نہیں ہے۔ قائد کیلئے مرنے والوں کے گھروں میں آج کھانے کیلئے روٹی بھی نہیں ہے۔ الطاف حسین کے اندر سب سے زیادہ اناپرستی بھری ہوئی ہے۔ منافقت کرنے والے پارٹی خیرباد کہہ کر اخلاقی جرات کا مظاہرہ کریں۔