Thursday, April 25, 2024

فریقین سچ سامنے آنے نہیں دینا چاہتے: سپریم کورٹ

فریقین سچ سامنے آنے نہیں دینا چاہتے: سپریم کورٹ
January 12, 2017

اسلام آباد (92نیوز) پاناما لیکس کیس میں نیا موڑ آگیا۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم کی تقریر کا معاملہ اٹھا دیا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ عوام سچ جاننا چاہتے ہیں، پاناما کیس میں فریقین سچ سامنے آنے نہیں دینا چاہتے۔ پورا سچ کیوں نہیں بتایا؟ کیا یہ غلط بیانی نہیں؟ فاضل بینچ کے وزیراعظم کی تقاریر پر سوالات، وزیراعظم کے وکیل نے کہا جان بوجھ کر کچھ نہیں چھپایا، کوئی بات رہ گئی تو غلط  بیانی نہیں کہا جا سکتا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کہتے ہیں وزیراعظم نے تقریر میں حقائق کوجان بوجھ کر چھپایا ہے تو نتائج سنگین ہونگے۔ آدھے سچ کو سچ مانیں یا جھوٹ۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5رکنی لاجر بنچ نے پاناما لیکس کیس کی سماعت کی۔ وزیراعظم نوازشریف کے وکیل مخدوم علی خان نے وزیراعظم کا قوم سے خطاب پڑھ کر سنایا۔ اپنے دلائل میں انہوں نے کہا کہ نوازشریف کی برٹش ورجن آئی لینڈ میں کوئی کمپنی ہے نہ وہ کسی آف شور کمپنی کے ڈائریکٹر، شیئر ہولڈر یا بینفیشل مالک ہیں۔

درخواست گزاروں نے تقاریر میں تضاد کی بات کرکے نااہلی کی بات کی۔ پٹیشن میں نوازشریف پر جھوٹ بولنے کا الزام ہی عائد نہیں کیا گیا۔ بس یہ کہا گیا کہ نوازشریف نے الزامات کی درست وضاحت نہیں کی۔ تحریک انصاف کی درخواست اور دلائل میں تضاد ہے۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ وزیراعظم کی تقریر پہلے سے تحریر شدہ تھی۔ انہوں نے فی البدیہہ نہیں کی۔ وزیراعظم کی جانب سے بعض حقائق کو چھپانا محض معصومانہ خطاء تھی یا جان بوجھ کر ایسا گیا کیا۔ تقریر اگر معصومانہ خطا ہے تو نظرانداز کیا جا سکتا ہے لیکن جان بوجھ کر کی جانے والے خطا کے سنگین نتائج ہوں گے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ آدھے سچ کو سچ مانیں یا جھوٹ۔ ہم تقریر کو غلط نہیں مانتے لیکن اگر کوئی چیز چھپائی گئی ہے تو پھر اسے آدھا سچ مانیں۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ عدالت کے سامنے 2اقسام کی منی ٹریل ہیں۔ پیسہ دبئی سے جدہ اور پھر لندن کیسے گیا؟ یا قطر سے لندن کیسے گیا؟

ان کا کہنا تھا کہ بعض مقدمات میں ثبوت براہ راست موجود نہیں ہوتا۔ حالات و واقعات سے سچائی کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ کیا دبئی مل کا وجود تھا؟ جسٹس اعجاز افضل نے کہا جاننا چاہتے ہیں کہ کیا کاروبار میاں شریف کا تھا؟ سوال یہ ہے کہ دبئی فیکٹری کےلئے رقم دبئی کیسے گئی۔ دونوں فریق نہیں چاہتے کہ سچ سامنے آئے۔ کبھی ایک رکاوٹ کھڑی کرتا ہے تو کبھی دوسرا۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ عدالت نے آرٹیکل ایک سو چوراسی تین میں اپنے دائرہ اختیار کو طے کر رکھا ہے۔ موجودہ معاملہ عدالت کے اس دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔

ان کا موقف تھا کہ نواز شریف کے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی کی تقریر پر نااہلی مانگی گئی ہے اور درخواست گزار کے مطابق نواز شریف آرٹیکل 62 کے تحت ناہل ہو گئے جبکہ آرٹیکل 62 کے تحت نااہلی پر کسی عدالتی فورم کا فیصلہ ہونا ضروری ہے۔