چودھری شوگر ملز میں پیسے نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کے ٹھیکے سے آئے، شہزاد اکبر
اسلام آباد (92 نیوز) چودھری شوگر ملز بہت بڑا کارپوریٹ فراڈ ہے، شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کے ٹھیکے میں سے پیسے شوگر چودھری ملز میں آئے، آف شور کمپنی بناکر 15 ملین ڈالر قرض حاصل کیا گیا۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ چودھری شوگر ملز سے متعلق پوچھا جاتا ہے کہ کیا ہوا، پہلا سوال یہ ہے کہ یہ شوگر مل لگائی کس طرح گئی، پہلے یہ نام شیڈن جرسی کے نام سے ایک آف شور کمپنی بنائی گئی، کوئی جوائنٹ وینچر کر کے یہ آف شور کمپنی بنائی گئی، اسی آف شور کمپنی کی مدد سے مشینری خریدی گئی، جیسے ہی پیپر ورک مکمل ہو گیا اس کے کے بعد نہ پیسہ واپس آیا اور نہ ہی مشینری آئی۔ 20 ملین ڈالر پاکستان سے باہر بھیجے گئے۔
ورلڈ بینک کا ایک سٹاک پروگرام ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آف شور کمپنی کا وہ ہی ایڈریس ہے جو دیگر پانامہ پیپر والی آف شور کمپنیوں کا ایڈریس ہے، اسحاق ڈار اپنا اقبالیہ بیان دے چکے ہیں کہ کس طرح منی لانڈرنگ کی گئی، پہلا قرضہ جو 80 ملین کا قرضہ چوہدری شوگر مل کے لئے لیا گیا، اسحاق ڈار نے یہ ہی رقم ہنڈِی کے ذریعے پیسے بایر بھیجے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ایک کمپنی پنجاب کارپٹ ظاہر کی اور مہران بینک سے قرضہ لیا گیا، پنجاب کارپٹ نے 65 ملین میاں نواز شریف کو قرض دیا۔ قاضی گیملی کے اکائونٹ جس میں 15 ملین کے قریب رقم تھی انہیں یہ رقم پھر باہر بھجوا دی گئی، ایک بہرینی نیشنل خاتون صدیقہ بی بی کے نام پر 18 ملین ٹی ٹیز کئے گئے ہیں، یہ اٹھارہ ملین بھی چوہدری شوگر ملز کو گئے۔ فرق صرف اتنا آیا کہ والد باہر لوگوں کے نام استعمال کرتے تھے اور بیٹا ریڑھی والواں کو استعمال کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف صاحب کے وزیراعظم بنتے ہی قرض معاف کردیا گیا، نیو اسلام آباد ایئرپورٹ کے ٹھیکے میں سے پیسے شوگر چودھری ملز میں 560 ملین آئے۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب نے دوران پریس کانفرنس کہا کہ چوہدی شوگر مل کو لے کر کچھ گرفتاریاں ہوئیں اور تفتیش بھی چل رہی ہے۔ شوگر مل میں دس پوائنٹ ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ کرپشن ہوئی، 1991 میں جب یہ مل لگائی گئی اس وقت ان کی ظاہر کردہ حیثیت 13 لاکھ کی تھی۔
شہزاد اکبر بولے کہ شہباز شریف نے ابھی تک میرے سوالات کا جواب نہیں دیا، چودھری شوگر ملز کے اثاثے ساڑھے 6 ارب روپے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج جس جگہ یہ ملک کھڑا ہے وہ بیرونی قرضوں کی وجہ سے ہے، پاکستان میں تمام چیزیں قوانین کے مطابق ہی چلنی ہیں۔ میاں نواز شریف لندن جا کر بیٹھ گئے ہیں، جب پاکستان میں تھے تو وقت کے ساتھ ساتھ رپورٹس آتی تھیں، اب ہم رپورٹس مانگ مانگ کر تھک گئے ہیں لیکن سب عوام کے سامنے ہی ہے۔ اگر نواز شریف کی بیل میں توسیع نہیں ہوتی تو انہوں نے کو نسا واپس آجانا ہے۔