Thursday, April 25, 2024

نواز شریف نے ضمانت کیس کی جلد سماعت کیلئے نئی درخواست دائر کردی‏

نواز شریف نے ضمانت کیس کی جلد سماعت کیلئے نئی درخواست دائر کردی‏
March 11, 2019
اسلام آباد (92 نیوز) نواز شریف نے ضمانت کیس کو جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی نئی درخواست دائر کردی۔ درخواست میں استدعا کی گئی کہ صحت پہلے ہی خراب ہو چکی ہے ، ضمانت کیس کو رواں ہفتے ہی سماعت کیلئے مقرر کیا جائے ۔

قبل ازیں درخواست مسترد ہوئی

نواز شریف کی جانب سے پہلے بھی ضمانت مسترد ہونے کیخلاف اپیل جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی درخواست دائر کی تھی جسے عدالت نے چار مارچ کو مسترد کر دیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ اپیل کو اپنی باری پر ہی سماعت کے لئے مقرر کیا جائے گا۔ نوازشریف نے العزیزیہ ریفرنس میں درخواست ضمانت مسترد کرنے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 25 فروری کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے،اپیل پر سماعت کیلئے عدالت میں الگ سے درخواست بھی دی۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کےخلاف اپیل میں نوازشریف نے موقف اختیار کیا ہے کہ عدالت عالیہ قانون میں دیئے گئے اختیارات استعمال کرنے میں ناکام رہی،ضمانت کے اصولوں کو بھی مد نظر نہیں رکھا۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نے ضمانت کی درخواست رد کی تھی

اس سے قبل العزیزیہ ریفرنس  کے ملزم نواز شریف نے طبی بنیادوں پر سزا معطلی کی درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی تھی جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ کیس غیر معمولی نوعیت کا نہیں ہے۔ نواز شریف  کو علاج معالجے کی سہولیات دستیاب ہیں،طبی بنیادوں پر ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ جسٹس عامرفاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل بینچ نے  9 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا  تھا ۔ فیصلے میں  کہا گیا کہ کیس غیر معمولی نوعیت کا نہیں ہے ۔ نواز شریف کو علاج معالجے کی تمام سہولیات دستیاب ہیں، طبی بنیادوں پر ضمانت نہیں دی جا سکتی ۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں کے نتیجے میں ضمانت نہیں دی جاسکتی،نواز شریف جیل میں ہی رہیں گے،وکیل صفائی مخصوص حالات ثابت کرنے میں ناکام رہے ۔ عدالتی فیصلے میں شرجیل میمن کیس کا بھی حوالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ  عدالتی نظیریں موجود ہیں کہ اگر قیدی کا جیل یا اسپتال میں علاج ہو رہا ہو تو وہ ضمانت کا حق دار نہیں۔ نوازشریف نے العزیزیہ ریفرنس میں طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست دائر کررکھی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد بیس فروری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ ملزم کے وکیل خواجہ حارث نے نواز شریف کی بیماری کو سنجیدہ معاملہ قرار دیا تھا  اور موقف اختیار کیا تھا کہ سب جیل کا ماحول بھی اعصابی تناؤ کا باعث بنتا ہے۔ نیب نے نواز شریف کی درخواست ناقابل سماعت قرار دینے کی استدعا کی تھی۔ نوازشریف نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا معطلی کیلئے یکم جنوری کو عدالت عالیہ سے رجوع کیا تھا۔ تین جنوری کو رجسٹرار آفس نے درخواست پر اعتراضات عائد کیے جنہیں پانچ جنوری کو دور کرکے دوبارہ درخواست دائر کی گئی۔ آٹھ جنوری کو اپیل کی جلد سماعت کیلئے مجرم نے عدالت سے رجوع کیا۔ نوازشریف نے 26 جنوری کو یوٹرن لیا اور طبی بنیادوں پر سزا معطلی مانگ لی اور پہلی درخواست واپس لینے کی استدعا کی جسے ہائی کورٹ نے 12 فروری کو منظور کرلیا۔
نواز شریف العزیزیہ ریفرنس کے مجرم ہیں
اس سے قبل  احتساب عدالت کی جانب سے نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں مجرم قرار دیتے ہوئے سات سال قید اور دس سال کی نا اہلی کی سزا سنائی گئی تھی ۔ احتساب عدالت نے نواز شریف کو  25 ملین ڈالر اور 1.5 ملین پاؤنڈ کے جرمانے کی سزا بھی سنائی  تھی جب کہ  انہیں فلیگ شپ ریفرنس میں باعزت بری کیا گیا تھا۔ عدالت نے العزیزیہ ریفرنس کیس میں  نواز شریف کی جائیداد ضبط کرنے کا حکم  دیا تھا   ۔ نواز شریف کے  صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز کو مفرور قرار دیتے ہوئے  دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کئے تھے ۔ نواز شریف نے عدالت سے اڈیالہ کی بجائے لاہور جیل منتقل کرنے کی  درخواست کی تھی جسے منظور کرتے ہوئے نواز شریف کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔