Wednesday, April 24, 2024

نریندر مودی کی کشمیری قیادت سے ملاقات بے نتیجہ رہی، شاہ محمود قریشی

نریندر مودی کی کشمیری قیادت سے ملاقات بے نتیجہ رہی، شاہ محمود قریشی
June 25, 2021

اسلام آباد (92 نیوز) وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہتے ہیں، نریندر مودی کی کشمیری قیادت سے ملاقات بے نتیجہ رہی۔

جمعہ کے روز اسلام آباد میں سیکرٹری خارجہ سہیل محمود کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا، دہلی کی بیٹھک، گفتن، نشستن، برخاستن کی عمدہ مثال تھی، کل کی نشست ایک ناٹک تھا، جس کا کوئی حاصل حصول نہیں۔ کشمیری قیادت نے 5 اگست کے غیر قانونی اقدامات واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ مودی نے جان لیا کہ کشمیری دہلی سے دور، فاصلے پر ہیں۔

اُنہوں نے کہا، دہلی کی نشست میں کل جماعتی حریت کانفرنس کو نہ دعوت دی گئی، نہ موجود تھے۔ رہنماؤں نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق دیرپا حل کی بات کی۔

اُن کا کہنا تھا، گزشتہ 2 سال میں کشمیریوں پر مظالم سے بھارت کی ساکھ متاثر ہوئی، بھارت بے انتہا ظلم کے باوجود کشمیریوں کا عزم نہیں توڑ سکا۔ دو سال سے بھارتی سپریم کورٹ میں کشمیر سے متعلق مقدمہ زیر التواء ہے، اگر سرکاری کشمیری رہنما مطمئن ہوتے تو وہ کبھی سپریم کورٹ نہ جاتے۔

شاہ محمود قریشی نے کہا، ہمارا اعتماد ختم ہو چکا ہے، کشمیری بہت غصے میں ہیں، نالاں، تکلیف اور کرب میں مبتلا ہیں۔ کشمیری اپنی شناخت واپس، آبادی کے تناسب کی تبدیلی کی کوشش کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا، مقبوضہ جموں و کشمیر کا معاملہ او آئی سی، یورپین یونین، انسانی حقوق کمیشن میں اٹھایا۔ سلامتی کونسل کے صدر، سیکرٹری جنرل، صدر جنرل اسمبلی سے معاملہ اٹھایا۔ دنیا میں جہاں موقع ملتا ہے وہاں سلامتی کونسل قراردادوں کے تحت معاملہ اٹھاتے ہیں۔

وزیر خارجہ نے افغان امن عمل پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، افغانستان میں اقوام متحدہ امن فوج کی تعیناتی ہمارے علم میں نہیں۔ ترکی سے توقع کی جا رہی ہے کہ کابل کے ہوائی اڈے پر سکیورٹی ذمہ داریاں برقرار رکھے۔ انہوں نے کہا کہ، افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہوا، کمی کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان، افغان امن عمل میں سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے، افغانستان میں پاکستان کا کوئی فیورٹ نہیں۔

شاہ محمود ایٹمی اثاثوں کے حوالے سے بولے کہ، پاکستان کی جوہری اثاثو‍ں سے متعلق پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں۔ پاکستان کے تذویراتی تحمل کے اُمور اپنی جگہ موجود ہیں۔ وزیراعظم کے بیان کو اگر اس تمام تناظر میں دیکھا جائے تو سمجھنے میں مشکل نہیں ہو گی۔