Thursday, April 25, 2024

نائینٹی ٹو نیوز ۔ نئی سوچ ۔نیا آغاز

نائینٹی ٹو نیوز ۔ نئی سوچ ۔نیا آغاز
March 24, 2015
لوگ یہ سوال کرنے میںحق بجانب ہیں کہ کیا ضرورت ہے ایک نئے نیوز چینل کی؟ اتنے بہت سے نیوز چینل ہیں ۔ ہر خبر اب سب کے سامنے ہیں۔ ہر واقعے کے چشم دید گواہ اب کروڑوں لوگ ہیں۔ جرم کی داستانیں ہم سن چکے ہیں ۔ سیاست کی چیرہ دستیوں سے بھی واقف ہو چکے ہیں ، ہر بات کہی ، دوہرائی اور پھر دہرائی جا چکی ہیں ۔ ہر سانحہ اب گزر چکا ہے۔قیامت صغری کئی بار بپا کی جا چکی ہے ، نیوز چینلز پر سب کا اتنا مذاق اڑایا جا چکا ہے کہ اب پوری قوم ہی مذاق بن گئی ہے۔اب کون سی خبر، کون سا حادثہ اور کون سا ظلم ہے جو دکھانے سے رہ گیا ہے ۔ کرپشن کی کون سی داستان ہے جو منظرعام پر نہیں آئی۔ لوگ یہ سوال کرنے میںحق بجانب ہیں کہ کیا ضرورت ہے ایک نئے نیوز چینل کی؟ پورے اعتماد کے ساتھ میرا جواب یہ ہے کہ ضرورت ہے اور اشد ضرورت ہے اور اس کا ٹھوس جواز ہے میرے پاس ۔۔۔بدقسمتی سے میڈیا آزاد ہونے کے بعد ایک اور قید میں آگیا۔ چینلز نے پارٹی پوزیشن لے لی ۔ اپنے اپنے محبوب اور مجرم چن لیئے۔ چینلز کی پالیسی ان پارٹیوں کے گرد گردش کرنے لگی۔ ایک پارٹی کی آنکھ کا تنکا نظر آنے لگا تو دوسری پارٹی کا شہتیر نگاہوں سے اوجھل ہونے لگا۔ ایک پارٹی پر مسلسل تنقید اور دوسری پارٹی پر توصیف کی بارش ہونے لگی۔ ایک کے کرپشن کی نت نئے کیسز سامنے آنے لگے دوسرے کے ظلم کی داستانوں پر چینل پردے ڈالنے لگے۔ میڈیا سیاسی پارٹیوں میں تقسیم ہونے لگا۔ اپنے لیڈروں کی کہانی کہنے لگا۔ مجرموں کو معافی دینے لگا اور نیک و کاروں کا تمسخر اڑانے لگا۔ایسے میں ایک چینل کی اشد ضرورت ہے جو”نہ کسی کے زیر اثر ، نہ کوئی منظور نظر “ کا نعرہ لگائے اور با وثوق خبر کو اپنا مقصد بنائے۔ لوگ بنیادی طور پر تماشے سے خوش ہوتے ہیں۔ کچھ دیر تالیاں بجاتے ہیں پھر لمبی تان کر سو جاتے ہیںجن چینلز کو سیاسی جماعتوں نے گھاس نہیں ڈالی انہوں نے تماشے میں شریک ہونے کی خاطر ایک نئی راہ دریافت کی۔ اس گھناﺅنے راستے کو ہم کرائم شوز کے نام سے جانتے ہیں۔ جھوٹی سچی جرم کی خبریں چسکے لے کر پیش کی جاتی ہیں ۔ گھٹیا اور سستی پروڈکشن نے اس کام میں اور لذت پیدا کر دی۔معاشرے کا گھناونا روپ بہت ہی سستے داموں بکنے لگا۔ عزتوں کو تارتار ہوتے دیکھتے ، بچوں کے ساتھ زیادتی کے مناظر کی ری انیکمینٹس ہوتے ،بینک ڈکیتیوں میں لوگوں کو مرتے دیکھ کر لوگوں کو بھی مزا آنے لگا۔ میڈیا کے ذریعے منافع کے حصول کے خواہشمندوں نے یہ کریہہ فعل کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ کتنے لوگ ان کرائم شوز کی وجہ سے مجرم بن گئے ہیں ۔ کتنے گھر لٹ گئے کتنی عزتیں خاک میں مل گئیں۔ ایسے میں ضرورت ہے ایک ایسے چینل کی جو معلومات اور خبر یں آپ تک آگاہی کے لیے پہنچائے ،جر م کے فروغ یا آپ کو ڈیپریشن کا مریض بنانے کے لیے نہیں۔ میڈیا کی گمنام آزادی کا ایک اور نتیجہ یہ ہوا کہ اینکر خود کو اپنی ذات میں میڈیا سمجھنے لگے۔ خبر دینے والے خود خبر ہونے کے مزے لینے لگے۔ ادارتی پالیسی ان بڑے ناموں کے موڈ اور مزاج کی محتاج ہونے لگی۔فیصلے ذات کی مرضی سے ہونے لگے۔ لوگ خبر سے بلند ہونے لگے۔میڈیا کی اس تیز رفتار دوڑ میں سب کچھ ہونے لگا لیکن خبر منظر سے دور ہونے لگی۔ تماشے ، تالیاں اور تماشبین ممتاز ہونے لگے۔ چینلز اپنے محوراور مقصد سے ہٹنے لگے۔ نائینٹی نیوز کا نعرہ زیادہ کچھ نہیں بس خبر دینے اور باوثوق خبر دینے تک محدود ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں مگر یہ وہ بات ہے جو ہماری ٹیلی صحافت بھول چکی ہے۔ ہم اس چینل میں کوئی نئی قدر شامل نہیں کر رہے بس صحافت کی بنیادی قدریں واپس لارہے ہیں۔بھولا ہوا رستہ سجھا رہے ہیں ، درست سمت دکھلا رہے ہیں نیوز چینل کا بنیادی کا م خبرکو اسکے اصل سیاق و سباق میں دکھانا ہے، خبر بتانا ہے۔ بے لاگ اور بے لحاظ۔ بس یہی اصول ٹیلی صحافت کا محور ہے۔ یہی سوچ مرکز ہے۔ یہی بنیاد ہے یہی قائدہ ہے اور یہی اسلوب ہونا چاہےے۔اور یہی نائینٹی ٹو نیوز میں آنے کا مقصد ہے۔ پاکستان کا پہلا ایچ ڈی چینل ہونا بہت بڑی بات ہے مگر اس بات کو درست سمت میں سوچ کی مدد سے اور بڑا کیا جا سکتا ہے۔میڈیا کی موجودہ رفتار میں نائینٹی ٹو نیوز ایک نئی سوچ ہے ایک نیا آغاز ہے ۔ امید کا استعارہ ہے۔ اس سے بہت سے لوگوں کی بہت سی توقعات وابستہ ہیں۔ ان توقعات پر صحافت کے بنیادی اصول اور سچ کہنے کا حوصلہ ہی واپس لا سکتا ہے ۔ کیونکہ تاریکی جب حد سے بڑھ جائے تو روشنی کا امکان توانا ہو جاتا ہے۔ نائینٹی ٹو نیوز روشنی کا وہی توانا استعارہ ہے ،اندھیرے میں ایک تارا ہے جو صحافت کے افق پر چمکنے جا رہا ہے ۔