Friday, April 26, 2024

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ؟ سب نے لب سی لیے

میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کروں ؟ سب نے لب سی لیے
December 27, 2015
کراچی (92نیوز) دو سو پچپن سماعتوں کے دوران دو حکومتیں اور سات جج تبدیل ہوئے۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ اور اقوام متحدہ سے بھی تحقیقات کرائی گئیں۔ کیا بی بی کے قاتل کا کبھی پتہ چل سکے گا؟ قوم کا سوال۔ تفصیلات کے مطابق بے نظیر بھٹو کی شہادت کو 8 سال گزر گئے۔ اس دوران پیپلزپارٹی کے 5 سال بھی گزرے اور اس حکومت کے ڈھائی سال بھی جس کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ وہ اپنی بہن کے قاتلوں کو کٹہرے میں لائیں گے لیکن دیگر مقتول وزراءاعظم کی طرح یہ قتل بھی ایسا معمہ ہے جس کا کوئی سرا ہاتھ نہیں آ رہا۔ 27دسمبر 2007ءکو کیا ہوا جانیے 92نیوز کی یہ رپورٹ۔ 27 دسمبر کو لیاقت باغ میں پیپلز پارٹی کا ایک اہم جلسہ منعقد ہونا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ محترمہ کی جانب سے سکیورٹی خدشات کا مسلسل اظہار کیا جارہا ہے اور حساس اداروں نے پیپلزپارٹی کو ممکنہ حملوں سے خبردار کیا ہے۔ تمام تر خطرات کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو کا قافلہ اسلام آباد سے راولپنڈی لیاقت باغ کی جانب روانہ ہوتا ہے۔ اس دن سکیورٹی کے انتہائی اقدامات کی ضرورت ہے تاہم جلسہ گاہ تک پہنچنے سے پہلے ہی سکیورٹی کی ناقص صورتحال واضح ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ 45 منٹ کے خطاب کے بعد جلسہ مکمل کرکے محترمہ بے نظیر بھٹو اسٹیج سے اتریں اور دور کھڑی اپنی بلٹ اور بم پروف گاڑی میں سوار ہوتی ہیں۔ کارکنوں کے بتانے کے باوجود ڈرائیورنے گاڑی پولیس کی پائلٹ گاڑی کے پیچھے لگا دی تاہم پولیس کی پائلٹ پہلے سے طے شدہ روٹ یعنی گوالمنڈی کی جانب نہیں بڑھی۔ لیاقت باغ کے وی آئی پی گیٹ کے پاس محترمہ کی گاڑی رکی اور بے نظیر بھٹو کارکنوں کے نعروں کا جواب دینے کیلئے کھڑی ہوگئیں جو اپنے آپ میں ایک انہونی ہے۔ پارٹی کارکن بے نظیر بھٹو کی گاڑی کی طرف بڑھتے ہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ عین اس وقت ایس ایچ او کا شف نے پولیس اہلکاروں سمیت کالج روڈ کی طرف دوڑ لگا دی۔ ایک فائر کی آواز جلسہ گاہ کا منظر تبدیل کردیتی ہے۔ تیسرے فائر نے لوگوں میں بھگدڑ مچادی لیکن ابھی ایک اور دھماکا ہونا باقی ہے۔ فائرنگ اور بم دھماکا محترمہ اور کئی پارٹی کارکنوں کی جان لے گیا۔ محترمہ کی شہادت سے بے خبرپارٹی کارکنوں نے بس یہ دیکھا کہ محترمہ کی گاڑی چند لمحے رکنے کے بعد تیزی سے باہر نکل گئی۔ لوگوں نے زخمیوں کو اٹھانا شروع کردیا اور اسی لمحے فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آن پہنچیں۔ محترمہ کی گاڑی کچھ دور جاکر بند ہوگئی۔ انہیں ایک دوسری گاڑی میں منتقل کرکے صفدر عباسی‘ ناہید خان اور دیگر رہنماوں نے راولپنڈی جنرل ہسپتال تک پہنچایا۔ اس وقت ڈاکٹر مصدق نے بی بی کی موٹ گولی لگنا ہی بتایا مگر اگلے روز یہ بیان تبدیل ہوگیا۔ پوری تحقیقات سے پہلے ہی وجہ موت متنازعہ ہوگئی۔ آپریشن تھیٹر کے اندر لی گئی تصویر سے واضح ہے کہ محترمہ کے سر نہیں گردن پر زخم آیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب محترمہ کی شہادت گولی لگنے سے ہوئی تو حکومت نے وجہ موت بم دھماکے کی شدت اور گاڑی کا لیور لگنا کیوں بتایا؟ جلسے کے اختتام سے محترمہ کے قتل تک پیش آنے والے واقعات کا بغور جائزہ لیں تو کئی اور حیرت انگیز باتیں سامنے آتی ہے۔ اسٹیج سے اتر کر گاڑی میں بیٹھنے تک بی بی کے ارد گرد نہ کوئی پولیس اہلکار موجود تھا اور نہ کوئی ہیومین شیلڈ مگر قاتل نے اس جگہ کا انتخاب نہیں کیا۔ میڈیا پر جاری کی جانے والی فوٹیج میں بے نظیر بھٹو کے بالکل پیچھے شوٹر کی موجودگی واضح ہے۔ لیاقت باغ کے وی آئی پی گیٹ سے مشرق کی جانب یعنی بی بی کی گاڑی کے بالکل سامنے پیپلز سیکرٹریٹ آفس کی عمارت پر گولی کا واضح نشان موجود ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ اس دن فائر صرف محترمہ کے پیچھے نظر آنے والے حملہ آور نے نہیں کیے۔ بی بی کی گاڑی کے مغربی جانب قائم عمارتوں یادرختوں پر چڑھ کر سنائپرشارٹ کیا جائے تب ہی اس عمارت پر موجود گولی کے نشان کی وضاحت ہوسکتی ہے۔ سکارٹ لینڈ یارڈ کی رپورٹ‘ ڈاکٹرز کی میڈیکل رپورٹ‘ اقوام متحدہ کمیشن کی رپورٹ اور حکومتی بیان سب ہی بم دھماکے کی شدت کو کھوپڑی کے فریکچر اور موت کی وجہ قرار دیتے ہیں مگر عینی شاہدین اور تصویری شواہد اس کی نفی کر رہے ہیں۔ 27 دسمبر کو لیاقت باغ میں کیا ہوا اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کیلئے جاننا پڑے گا کہ ریڈ زون میں ایک شوٹر اور خود کش حملہ آور کی موجودگی کیسے ممکن ہوئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو وی آئی پی گیٹ پر سکیورٹی خدشات کے باعث گاڑی سے باہر کیوں نکلیں؟ فائر ہوتے ہی محترمہ کے سر کا اینگل اچانک تبدیل ہوا اور وہ نیچے گر گئیں۔ پولیس پائلٹ کا رخ گوالمنڈی کے بجائے مری روڈ کی طرف کیوں تھا ؟ سب سے بڑھ کر حکومت اب تک بی بی کی موت کا ذمہ دار بم دھماکے کی شدت کو کیوں قرار دے رہی ہے۔