Thursday, May 9, 2024

میر ظفر اللہ جمالی وینٹی لیٹر پر ہیں ، انتقال کی خبروں میں صداقت نہیں ،اہلخانہ

میر ظفر اللہ جمالی وینٹی لیٹر پر ہیں ، انتقال کی خبروں میں صداقت نہیں ،اہلخانہ
November 30, 2020

میر ظفر اللہ جمالی کے صاحبزادے نے 92 نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے  کہا کہ میر ظفر اللہ خان جمالی کی اسپتال میں حالت تشویشناک  ہے ، وہ وینٹی لیٹر پر ہیں  ۔

اس سے قبل صدر عارف علوی، علی محمد خان، لیاقت شاہوانی، خواجہ آصف سمیت کئی شخصیات نے ظفر اللہ جمالی کے انتقال کی اطلاع دے کر تعزیت بھی کر دی ، بعد ازاں  بیانات واپس لے کر معذرت کی۔

میر ظفر اللہ جمالی کو دل اور گردوں کی تکلیف تھی ،  وہ اے ایف آئی سی کے شعبہ انتہائی نگہداشت میں زیرعلاج ہیں ۔

میر ظفر اللہ جمالی یکم جنوری 1944 کو بلوچستان کے ضلع نصیر آباد کے علاقہ روجھان جمالی میں پیدا ہوئے ، انہوں نے  سینٹ لارنس کالج گھوڑا گلی ، ایچی سن کالج لاہور اور 1965 میں گورنمنٹ کالج لاہور سے تاریخ میں  ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی ۔

اکتوبر 2002 کے انتخابات کے نتیجے میں ان کو پارلیمنٹ نے 21 نومبر 2002 میں وزیر اعظم منتخب کیا ،  انہوں نے 26 جون 2004 کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔

جب محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان  کے خلاف  اپنی انتخابی مہم کیلئے  میر ظفر اللہ جمالی کے علاقے میں آئی تو ظفر اللہ جمالی بطور محافظ ان کے ساتھ تھے ۔

میر ظفر اللہ جمالی سال 1977ء میں بلا مقابلہ صوبائی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے اور صوبائی وزیر خوراک اور اطلاعات مقرر کیے گئے ،  1982ء میں وزیر مملکت خوراک و زراعت بنے، 1985ء کے انتخابات میں نصیرآباد سے بلا مقابلہ قومی اسمبلی کے ارکان منتخب ہوئے۔ 1986ء میں وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی کابینہ پانی اور بجلی کے وزیر رہے۔ 29ء مئی 1988ء کو جب صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے جونیجو حکومت کو برطرف کیا تو انہیں وزیر ریلوے لگادیا۔

سال 1986ء کے انتخابات میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشست پر منتخب ہوئے ،  قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو گئے اور صوبائی اسمبلی کے ارکان بنے ، 1988ء میں وہ بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ مقرر ہوئے،  اس کے بعد ہونے والے انتخابات میں منتخب ہونے کے بعد انہوں نے وزارت اعلیٰ کا منصب تو برقرار رکھا لیکن اسمبلی توڑ دی جسے بعد میں عدالت کے حکم سے بحال کیا گیا۔

ظفر اللہ جاملی   1990ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے امیدوار تھے لیکن ناکامی کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 1993ء میں کامیاب ہو گئے۔ 9 نومبر 1996ء تا 22 فروری 1997ء دوبارہ بلوچستان کے نگراں وزیراعلیٰ رہے بعد ازاں   1997ء میں سینٹ کے رکن  منتخب کیے گئے ۔

سال 1999ء میں  نواز شریف کی جلاوطنی کے بعد جب مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تو جمالی مسلم لیگ (ق) لیگ کے جنرل سیکریٹری بنے۔ یہ جماعت نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹانے والے صدر جنرل پرویز مشرف کی زبردست حمایت کر رہی تھی،  مخالف دھڑے میں ہونے اور وزیر اعظم کی نامزدگی کے امیدوار ہونے کے باوجود وہ نواز شریف اور بینظیر بھٹو کو وطن واپس آنے اور انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دینے کے خواہش مند تھے ۔

جمالی اپنے دور اقتدار میں کوئی بڑا عوامی ریلیف دینے میں ناکام رہے تاہم ان کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ انہیں کے دور میں کوئی بڑا بحران نہیں رہا۔

میر ظفر اللہ خان جمالی صوبہ بلوچستان  سے  منتخب ہونے والے پاکستانی تاریخ کی پہلے اور واحد وزیر اعظم تھے ۔وہ پشتو، پنجابی ، بلوچی ، سندھی ، اردو اور انگریزی   زبانوں پر دسترس رکھتے تھے ۔