Tuesday, April 23, 2024

ممنوعہ فنڈنگ کیس ، درخواست گزار کا الیکشن کمیشن سے خود کیس سننے کا مطالبہ

ممنوعہ فنڈنگ کیس ، درخواست گزار کا الیکشن کمیشن سے خود کیس سننے کا مطالبہ
November 23, 2019
 اسلام آباد (92 نیوز) پی ٹی آئی کےخلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس میں اہم پیشرفت ہو گئی۔ درخواست گزار اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن سے خود کیس سننے کا مطالبہ کر دیا۔ تحریک انصاف کے خلاف غیرملکی اور ممنوعہ فنڈنگ کیس ملکی سیاست میں اہم رخ اختیار کرنے لگا۔ الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی 26 نومبر سے روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کرے گی۔ درخواست میں اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن سے کیس سے متعلق تمام ریکارڈ منگوا کر خود فیصلہ کرنے کی استدعا کر دی اور الزام عائد کیا کہ تحریک انصاف جان بوجھ کر اسکروٹنی کمیٹی کو غیر فعال بنا رہی ہے۔ حکمران جماعت نے اسکروٹنی کمیٹی کے 16 احکامات کو نظرانداز کیا۔ الیکشن کمیشن پہلے ہی اس کیس کی 70 بار سماعتیں کر چکا۔ https://twitter.com/DuraniIftikhar/status/1198088444066619393 ادھر وزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی نے کہا پی ٹی آئی کیخلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس میں رہزن کمیٹی کے دعوؤں میں صداقت نہیں۔ افتخار درانی نے ٹویٹ پیغام میں کہا پارٹی فنڈنگ کا مقدمہ 2017 میں سپریم کورٹ ردی کی ٹوکری میں پھینک چکی۔ حنیف عباسی بھی پی ٹی آئی کیخلاف فارن فنڈنگ ثابت نہیں کر سکے۔ حنیف عباسی کے کیس میں سپریم کورٹ کا فیصلہ سب کے سامنے ہے۔ https://twitter.com/DuraniIftikhar/status/1198088731217055744 وزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی کا کہنا تھا پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے پارٹی اکاؤنٹس کے ذریعے چوری کا پیسہ ٹھکانے لگایا۔ پیپلزپارٹی کی فنڈنگ فارن ایجنٹس اور مشکوک ذرائع سے ہوئی۔ نوازشریف کی منی لانڈرنگ کیلئے ن لیگ کے پارٹی فنڈز اور اکاؤنٹس استعمال ہوئے۔ معاون خصوصی اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے ٹوئٹ میں دعوی کیا کہ ‏فارن میں اکاؤنٹس، کاروبار اور علاج کروانے والے اور انکے ہم نواء فارن فنڈنگ کیس میں بھی منہ کی کھائیں گے۔ اپوزیشن سیاسی منافقت کی زندہ مثال بن چکی۔ الیکشن کمیشن پر فارم 45 اور آر ٹی ایس سے متعلق الزام عائد کرنے والے آج نئے بہروپ میں الیکشن کمیشن کو سیاسی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ دوسری طرف فیاض الحسن چوہان نے میڈیا سے گفتگو میں کہا پی ٹی آئی کی فنڈنگ کرنے والے تمام پاکستانی ہیں۔ مخالفین نے ذاتی مفاد کیلئے الزام لگائے۔ فنڈنگ سے متعلق رپورٹ باقاعدگی سے الیکشن کمیشن کو دی جاتی ہے۔ الیکشن کمیشن کسی جماعت پر پابندی نہیں لگا سکتا۔