Friday, April 26, 2024

بحریہ ٹاؤن کو زمین کی منتقلی فراڈ تھی،چیف جسٹس پاکستان  میاں ثاقب نثار

بحریہ ٹاؤن کو زمین کی منتقلی فراڈ تھی،چیف جسٹس پاکستان  میاں ثاقب نثار
October 4, 2018
اسلام آباد ( 92 نیوز) سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت میں پیش زمین کی قیمت کا تعین عملدرآمد بینچ کرے گا، عدالت قرار دے چکی کہ زمین کی منتقلی فراڈ ہے، نقشہ دیکھنے کے بعد لگتا ہے کہ فیصلے کی زبان سخت ہوگی۔ سپریم کورٹ میں بحریہ ٹاؤن نظرثانی کیس کی سماعت شروع ہوئی تو ملک ریاض عدالت میں پیش ہوئے، اس موقع پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ عدالت میں پیش زمین کی قیمت کا تعین عملدرآمد بینچ کرے گا، عدالت قرار دے چکی کہ زمین کی منتقلی فراڈ ہے، اور فراڈ پر بنی ہوئی عمارت قائم نہیں رہ سکتی۔ وکیل طارق رحیم نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن میں ایک لاکھ 65 ہزار رہائشی ہیں، عدالت رہائشیوں کے حقوق کو بھی مدنظر رکھے ، عملدرآمد بینچ کے فیصلے تک نیب کو کارروائی سے روکا جائے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ فریقین میں صلح سے جرم ختم نہیں ہوتا، عملدرآمد بینچ عدالتی حکم کو تبدیل نہیں کر سکتا، بحریہ ٹاؤن نے غلط کام نہیں کیا تو تحقیقات سے کیوں ڈر رہا ہے؟ ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایم ڈی اے کو ٹکڑوں میں بحریہ ٹاؤن نے زمین دی، بدلے میں سپرہائی وے پر زمین لی اور بلوچستان سرحد کے پاس زمین دی،  نقشہ دیکھنے کےبعد لگتا ہے فیصلے کی زبان سخت ہوگی،  بحریہ ٹاؤن کو دی گئی زمین کی قیمت کا تعین ہونا چاہئے ۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جس طرح زمین کے تبادلے ہوئے، اس سے ملی بھگت اور بدنیتی ثابت ہوتی ہے، بحریہ ٹاؤن کو اپنی زمین خرید کر منصوبہ شروع کرنا چاہئے تھا۔ بحریہ ٹاؤن کی رہائشی بیوہ خاتون بھی عدالت میں پیش ہوئی  اور کہا کہ ان کے ساتھ 25 لاکھ روپے کا فراڈ ہو چکا ہے ، ریاست غیرقانونی کام میں ملوث تھی تو ہمارا کیا قصور ہے؟، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کسی سے گھر چھینا جا رہا ہے نہ ہی سہولیات۔ بحریہ ٹاؤن کے رہائشی نے کہا کہ کچھ غلط ہوا تو پہلے کنٹرول کیا جانا چاہئے تھا  جس پر  جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جنہوں نے کنٹرول کرنا تھا وہ خود کسی کے کنٹرول میں تھے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈیم فنڈ میں پانچ ارب روپے رضاکارانہ طور پر نہیں بلکہ عدالتی حکم پر جمع کرائے گئے ، ملک صاحب 1500ارب روپے ڈیم فنڈ میں جمع کرائیں اور تاحیات نیکی کمائیں۔ ملک ریاض نے کہا کہ میری اوقات 50 ارب روپے کی بھی نہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی حیثیت تین ہزار ارب روپے کی ہے۔ملک ریاض نے کہا کہ وہ اپنے اثاثوں کا 25 فیصد ڈیم فنڈ کیلئے مختص کرتے ہیں ۔ چیف جسٹس نے ملک ڈوبنے کی بات پر وکیل زاہد بخاری کو ڈانٹ پلادی اور کہا کہ ملک ڈوبنے کی بات دوبارہ نہ کریں، کسی کی جرأت نہیں ملک کو ڈبو سکے۔