Monday, May 13, 2024

مقبوصہ کشمیر سے کرفیو کے خاتمے تک بھارت سے بات نہیں ہوسکتی، وزیراعظم

مقبوصہ کشمیر سے کرفیو کے خاتمے تک بھارت سے بات نہیں ہوسکتی، وزیراعظم
September 25, 2019
نیویارک (92 نیوز) وزیراعظم عمران خان نے نیویار ک میں پریس کانفرنس کرتے ہو ئے کہا کہ آرٹیکل 370 کی واپسی اور مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے خاتمے تک بھارت سے بات نہیں ہوسکتی، وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ،80لاکھ افرادکھلی جیل میں ہیں جس کی کوئی مثال نہیں ملتی، بھارت مقبوضہ کشمیرمیں آبادی کاتناسب تبدیل کرناچاہتاہے،امریکی صدر اور برطانوی وزیر اعظم سے مقبوضہ کشمیر پر بات کی، دو عالمی طاقتیں آمنے سامنے کھڑی ہیں، اقوام متحدہ کو کردار ادا کرنا ہوگا، مسئلہ کشمیر پر عالمی برادری کی خاموشی پر مایوسی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ مقبوصہ کشمیر کی سیاسی قیادت جیل میں ہے، 50روز سے 9لاکھ بھارتی فوجیوں نے کشمیریوں کو یر غمال بنا رکھا ہے، مقبوضہ کشمیر میں صورتحال سنگین ہوسکتی ہے ، میرا کام دنیا کو آگاہ کرنا ہے، آر ایس ایس دہشت گرد تنظیم ہے جس پر متعدد بار پابندی لگی،مقبوضہ کشمیر میں مظالم پر مسلم ممالک کو آواز اٹھانا ہوگی۔ ایٹمی جنگ ہوئی تو پورے خطے پر اثرات ہوں گے۔ عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ مقبوصہ کشمیرمیں مظالم ہورہے ہیں ، وہاں حالا ت بہت مشکل ہوتے جارہے ہیں، بھارت نے مقبوصہ کشمیر کو دنیا کی بڑی جیل میں تبدیل کردیا۔ انہوں نے کہا کہ 50 روز سے کشمیرسے متعلق خبرو ں کا بلیک آﺅٹ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ نے مقبو ضہ کشمیر سے متعلق 11 قرار دادیں منظور کر رکھی ہیں، اقوام متحدہ کی 11 قراردادوں میں مقبوضہ کشمیر کو متنازعہ علاقہ تسلیم کیا گیا، سکیورٹی کونسل اپنے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کراسکی ،قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونے سے کشمیری متا ثر ہورہے ہیں۔ کشمیریوں کیساتھ جو رہا ہے اس کی ذمہ داری یواین او پر بھی عائد ہوتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں لوگوں کیساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے، مقبوضہ کشمیر میں کرفیواٹھائے جانے تک مودی کے ساتھ مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں، جیسے ہی مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھے گا مودی کوصورتحال کا اندازہ ہو جائے گا، مقبوضہ کشمیر میں صرف اس لیے پابندیاں لگائی گئیں کیونکہ وہاں مسلمان ہیں۔ عمران خان نے مزید بولے کہ ہم نہیں جانتے کہ کرفیو اٹھنے کے بعد کیا ہوگا ؟ یہ ایک بحران کا آغاز ہے اور دنیا کو اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ہم نے معاملات کو معمول پر لانے کی ہر ممکن کوشش کی ، کیوبا بحران کے بعد پہلی مرتبہ دو عالمی طاقتیں آمنے سامنے ہیں، دنیا کو اپنا کردار ادا کرنا چاہتے اس سے پہلے کہ بہت برا ہوجائیں۔ وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ بدقسمتی سے بھارت پر گذشتہ 6 برس سے نسل پرست جماعت مسلط ہے، بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بات کی لیکن جواب میں سرد مہری ملی، بھارت میں انتہا پسند جماعت حکمرانی کر رہی ہے جو مسلمانوں کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ بتانا چاہتا ہوں کہ مقبوصہ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے، بھارت نے پلوامہ واقعے پر تبوت پیش کرنے کے جواب میں بمباری کی، بھارت نے اپنا پائلٹ واپس کرنے کو امن کا پیغام سمجھنے کے بجائے ہماری کمزوری سمجھا۔ انہوں نے کہا کہ ترکی کیساتھ اچھے تعلقات ہیں، ترک صدر آئندہ ماہ پاکستان آئیں گے۔ ایران کے مسئلے پر مزید بات نہیں کرسکتا۔ جنگ افغان مسئلے کا حل نہیں ،مذاکرت سے ہی حالات میں بہتری آئے گی ۔