Friday, April 19, 2024

قطری خط کی قانونی حیثیت پر سوال کرسکتے ہیں: سپریم کورٹ

قطری خط کی قانونی حیثیت پر سوال کرسکتے ہیں: سپریم کورٹ
January 10, 2017

اسلام آباد (92نیوز) سپریم کورٹ میں پاناما کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی گئی۔ جسٹس عظمت سعید کا کہنا ہے کہ بخاری صاحب بتائیں کہ دنیا کی کسی عدالت نے پاناما لیکس کی بنیاد پر کسی کے خلاف فیصلہ دیا۔ نعیم بخاری نے جواب میں کہا کہ آپ فیصلہ دے کر ابتدا کرینگے۔ پوری دنیا میں ان پاناما لیکس دستاویزات کو ثبوت مانا گیا۔ جسٹس کھوسہ کا کہنا ہے کہ قطری خط بھی بظاہر سنی سنائی بات ہے اس کی قانونی حیثیت پر سوال کرسکتے ہیں۔ دوسرے فریق کو اس حوالے سن کر کسی نتیجے پر پہنچیں گے۔

تفصیلات کے مطابق پاناما لیکس کیس کی سماعت5رکنی لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آرٹیکل 62 اور 63 سے متعلق اپنے ریمارکس واپس لے لئے۔ نعیم بخاری نے دلائل کا آغازکرتے ہوئے سابق ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے رحمن ملک کی 1998ءمیں تیار کردہ رپورٹ پڑھ کر سنائی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا یہ وہی رحمن ملک ہیں جو بعد میں وزیر بنے۔ انہوں نے رپورٹ کس حیثیت میں دی تھی۔ جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ جن دستاویزات کی روشنی میں رپورٹ تیار ہوئی وہ عدالت کے سامنے نہیں۔ جسٹس گلزار کا کہنا تھا کہ رپورٹ محض الزامات ہیں اس سے کچھ ثابت نہیں ہوتا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پولیس افسر کی رائے کے بغیر ثبوت کی کوئی قانونی اہمیت نہیں ہوتی۔ بخاری صاحب آپ کی ریسرچ بہت اچھی ہے لیکن اس کا کیا فائدہ۔ آپ کہہ رہے ہیں سپریم کورٹ پہلے تفتیش کرے اور پھر ٹرائل کورٹ بن کر فیصلہ دے اور اس پر عمل درآمد کرائے۔ ججوں نے آئین کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں۔ اس وقت عدالت کے سامنے معاملہ آئینی طور پرنااہل قرار دینے کا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ عدالت قانون سے بالاتر ہوکر تحقیقات کرے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ سیاسی معاملات میں نہیں جانا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ کیارحمان ملک نے بطور وزیر یہ معاملہ اٹھایا؟ کیا منی لانڈرنگ پر ہونے والی تحقیقات انجام کو پہنچیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ پاناما کیس لندن فلیٹس تک محدود ہے۔ اگر آپ دوسری جانب دلائل دینگے تو معاملہ کہیں اور نکل جائے گا۔

نعیم بخاری نے استدعا کی کہ عدالت اہلیت کی بنیاد پر فیصلہ کرے۔ نواز شریف نے پارلیمنٹ سے خطاب میں کہا کہ 2005ء میں جدہ فیکٹری فروخت کرکے بچوں کو سرمایہ دیا۔ حسن نواز نے 2001 میں کاروبار شروع کیا۔ 12 اپریل 2001 میں فلیگ شپ کمپنی کے ڈائریکٹر بنے۔ اس سال ان کے پاس 7لاکھ پاﺅنڈ تھے۔ یہ سرمایہ کہاں سے آیا؟

جسٹس عظمت سعید شیخ نے کہا کہ شریف خاندان کی اگر بات مانیں تو کاروبار کی رقم 2005 میں آئی۔ آپ کا مطلب ہے کہ حسن نواز کے پاس جون 2005 سے پہلے سرمایہ تھا۔ حسین نواز کا کہنا ہے کہ حسن کو کاروبار کی رقم اس نے دی۔ فلیگ شپ کمپنی برطانوی ہے۔ اس کا سراغ لگانا آسان ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ 1999 میں حسن نواز نے کہاکہ وہ طالب علم ہے۔ بخاری صاحب آپ کہنا چاہتے ہیں کہ وزیر اعظم کا موقف درست نہیں۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ سپریم کورٹ کا تقدس ہر حال میں برقرار رکھنا ہوگا۔ عدالت کو اپنے پیرا میٹرز سے باہر نہ نکالیں۔