Friday, March 29, 2024

مذہبی منافرت روکنے اور ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے ضابطہ اخلاق تیار

مذہبی منافرت روکنے اور ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے ضابطہ اخلاق تیار
October 6, 2020
 اسلام آباد (92 نیوز) وفاقی حکومت نے مذہبی منافرت روکنے اور ہم آہنگی پیدا کرنے کیلئے ضابطہ اخلاق تیار کر لیا۔ تمام مسالک کے علما کے اتفاق رائے سے 20 نکاتی ضابطہ اخلاق پیغام پاکستان کی روشنی میں جاری کر دیا۔ پیغام پاکستان کے پلیٹ فارم سے ارض پاک پر مذہبی منافرت کو روکنے اور ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے ضابطہ اخلاق  جاری کردیا گیا جس پر تمام مسالک کے جید علما نے اپنے دستخطوں کے ساتھ اتفاق رائے کرکے اسلام دشمن عناصر کو واضح پیغام دیا۔ ضابطہ اخلاق کے مطابق غیرملکی شہریوں کو اپنے مذہبی رسومات کی ادائیگی اپنے مذہبی عقائد کے مطابق کرنے کا پورا حق حاصل ہے اور کسی شخص کو خواتین سے ان کے ووٹ، تعلیم اور روزگار چھیننے کا حق حاصل نہیں۔ ضابطہ اخلاق میں غیرت کے نام پر قتل، قرآن پاک سے شادی، ونی، کاروکاری اور وٹہ سٹہ اسلام کی روح کے منافی قرار دیا گیا ہے اور کوئی بھی شخص مساجد، منبر، مجالس اور امام بارگاہوں میں نفرت انگیزی پر مبنی تقاریر نہیں کرے گا۔ اس کے ساتھ۔ فرقہ وارانہ موضوعات پر قومی اور سوشل میڈیا پر گفتگو کی معمانعت ہو گی۔ اس ضابطہ اخلاق میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ ہر فرد ریاست کے خلاف تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں کا حصہ بننے سے گریز کرے گا۔ ریاست تعصباتی اور نفرت پھیلانے والے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے اور کوئی شخص فرقہ وارانہ نفرت اور جبرا اپنے نظریات کسی دوسرے پر مسلط نہ کرے۔ ضابطہ اخلاق میں یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ کوئی نجی سرکاری یا مذہبی تعلیمی ادارہ عسکریت کی تبلیغ نہیں  کرے گا۔ تمام علما نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ عسکریت کی تعلیم دینے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ انتہا پسندی، فرقہ واریت، تشدد کو فروغ دینے والوں کے خلاف اقدامات کیے جائیں گے۔ تمام مسالک کے جید علما نے اتفاق رائے سے اس بات کو بھی ضابطہ اخلاق کا حصہ بنایا ہے کہ تمام شہریوں کا فرض ہے کہ ریاست کے ساتھ وفاداری کے حلف کو نبھائیں۔ تمام شہری پاکستان کے دستور میں درج بنیادی حقوق کے احترام کو یقینی بنائیں گے۔ دستور پاکستان کی اسلامی ساکھ اور قوانین پاکستان کے تحفظ  کو یقینی بنایا جائے گا۔ ضابطہ اخلاق کے مطابق پاکستان کے شہریوں کا حق ہے کہ شریعت کے نفاذ کیلئے پرامن جہدوجہد کریں لیکن اسلام کے نفاذ کے نام پر جبر کا استعمال غلط ہے۔ تشدد اور انتشار کی تمام صورتیں بغاوت سمجھیں جائیں گی۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ مسلح افواج کے افراد سمیت کسی کو کافر قرار دے۔ ضابطہ اخلاق میں یہ اجازت بھی دی گئی ہے کہ تمام مکاتب فکر کا حق ہے کہ وہ اپنے اپنے مسالک اور عقائد کی تبلیغ کریں لیکن کسی کو نفرت انگیزی اور اہانت پر مبنی جملوں یا بے بنیاد الزامات لگانے کی اجازت نہیں ہوگی اور کسی بھی  شخص کو خاتم النبین حضرت محمد ﷺ ، انبیائے اکرام علہہ السلام ، امہات المومنئین، اہل بیت ، الطہار،خلفائے راشدین اور صحابہ اکرام  کی توہین کی بھی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ پیغام پاکستان کی روشنی میں جاری ضابطہ اخلاق میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کوئی فرد یا گروہ قانون کو ہاتھ میں نہیں لے گا۔ کوئی فرد یا گروہ توہین رسالت کے کیسز کی تفتیش یا استغاثہ میں رکاوٹ نہیں بنے گا اور کوئی بھی فرد کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کرے گا۔ تمام مسالک کے جید علما نے اس پر بھی اتفاق کیا ہے کہ کسی کے بارے میں کفر کے مرتکب ہونے کا فیصلہ صادر کرنا عدالت کا دائرہ اختیار ہے۔ مسلمان کی تعریف وہی متعبر ہو گی جو دستور پاکستان میں ہے۔ کوئی فرد کسی قسم کی دہشتگردی کو فروغ نہیں دے گا اور نہ ہی دہشتگردوں کی ذہنی و جسمانی تربیت کرے گا۔ ضابطہ اخلاق میں یہ تجویز بھی کیا گیا ہے کہ علما، مشائخ اور زندگی کے ہر شعبہ سے متعلقہ افراد کو چاہیے کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں خاص طور پر مسلح افواج کی بھرپور حمایت کریں تاکہ تشدد کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔