Friday, May 3, 2024

لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا نعرہ لگانے والی مسلم لیگ ن سے عوام پانچ سال کا حساب مانگنے لگی

لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا نعرہ لگانے والی مسلم لیگ ن سے عوام پانچ سال کا حساب مانگنے لگی
May 22, 2018
اسلام آباد (92 نیوز) لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آنے والی جماعت مسلم لیگ ن سے عوام پانچ سال کا حساب مانگ رہے ہیں۔ اقتدار کے ایوان میں بیٹھے ہر حکومتی نمائندے سے قوم کا بس یہی سوال ہے کہ پانچ سال کا حساب دو۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے دو ہزار تیرہ میں جب اقتدار سنبھالا تو پاور سسٹم کی مجموعی پیداواری صلاحیت 23 ہزار میگاواٹ تھی۔ ڈی ریٹڈ صلاحیت یعنی تمام پاور پلانٹس چلانے پر 19 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جا سکتی تھی۔ دستاویزات کے مطابق حکومت اس وقت 15 سے 16 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتی تھی۔ مئی 2013 میں بجلی کی طلب 22 ہزار میگاواٹ تھی، یعنی شارٹ فال 5 سے 7 ہزار میگاواٹ تھا۔ اب موجودہ حکومت کی جانب سے جاری کردہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں ۔ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بجلی کی ڈی ریٹڈ صلاحیت آج بھی 19ہزار میگاواٹ ہے، اور پاور سسٹم اگر تمام وسائل استعمال کر بھی لے تو 18ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ وزارت توانائی کی جانب سے جاری کی گئی فہرست کے مطابق حکومت نے پانچ سال میں 41 پاور پلانٹس تعمیر کئے، جس سے 8 ہزار 6 سو 94 میگاواٹ اضافی بجلی سسٹم میں شامل ہوئی، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ لسٹ میں خان خوار اور جناح پن بجلی منصوبوں کا نام بھی شامل ہے، جو پیپلزپارٹی کے دور میں مکمل ہوئے اور 2010 سے بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ فہرست میں ایک ہی منصوبے کا اندراج 3 بار کر کے تعداد بڑھائی گئی۔ کیپٹیو پاور پلانٹس جو اپنے استعمال کے لئے بجلی پیدا کرتے ہیں اور اگر اضافی بجلی ہو تو نیشنل گرڈ کو فراہم کرتے ہیں۔ موجودہ حکومت نے ان کو بھی اپنے کھاتے میں ڈال لیا۔ پیپلزپارٹی دور میں شروع کیے گئے ونڈ پاور پلانٹس کی تعمیر بھی موجودہ حکومت اپنی کارکردگی گردانتی ہے لیکن حقیقت میں ونڈ پاور پلانٹس سے بجلی کی ترسیل کے لئے ٹرانسمیشن لائینز ہی نہیں ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک پاور پلانٹ سے بجلی کی ترسیل کے لئے دوسرے پاور پلانٹس کو بند کرنا پڑتا ہے۔ اگر بات کی جائے ایل این جی پاور پلانٹس کی تو ان کا افتتاح بھی مذاق سے کم نہیں۔ کھربوں روپے سے تعمیر کئے جانے والے یہ پاور پلانٹس صرف چند سو میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تعمیر سے قبل ہی افتتاح کئے جانے والے پاور پلانٹس بجلی کی ترسیل کی مکمل صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ کوئلے کے بجلی گھروں کی کہانی بھی بڑی تلخ ہے، اس سلسلے میں بھی دکھایا کچھ اور بتایا کچھ اور گیا۔ سرکاری دستاویزات کےمطابق کول پاور پلانٹس میں غیر معیاری ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ نیپرا کو دی جانے والی دستاویزات میں وزارت توانائی نے شپرکریٹکل ٹیکنالوجی کا ذکر کیا لیکن پاور پلانٹس میں سب کریٹیکل مشنیری استعمال کی گئی۔ اگر بات کی جائے ٹرانسمیشن سسٹم کی تو حکومت کو اس کا خیال 3سال بعد آیا اور بڑی ٹرانسمیشن لائنز کی تعمیر کے ٹھیکے اب دیئے جا رہے ہیں۔ یہ منصوبے آئندہ 4 برسوں میں مکمل ہوں گے۔ دوسری طرف ڈسٹری بیوشن سسٹم بارش برداشت کر سکتا ہے نہ تیز گرمی اور آندھی۔ ماہرین کے مطابق رواں سال بجلی کی طلب 25سے 26 ہزار میگاواٹ ہو گی اور پیداوار 17 ہزار میگاواٹ۔ آئندہ موسم گرما میں پھر بجلی کا شارٹ فال 6 ہزار میگاواٹ تک رہنے کا امکان ہے۔ اس تمام صورتحال میں عوام کی زبانوں پر بس ایک ہے سوال ہے کہ پانچ سال کا حساب دو۔