Monday, September 16, 2024

لندن فلیٹس کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟ عدالت

لندن فلیٹس کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟ عدالت
January 31, 2017

اسلام آباد (92نیوز) پاناما لیکس کیس میں نیب نے حدیبیہ پیپرملز ریفرنس پر اپیل دائر نہ کرنے سے متعلق اجلاس کا ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا۔ عدالت نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کے لئے سرمایہ کہاں سے آیا؟ 13سال لندن فلیٹس میں گزارے، انگلی تو اٹھے گی۔ وزیراعظم کی تقریر میں قطر میں سرمایہ کاری کا ذکر نہیں تھا۔

تفصیلات کے مطابق جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5رکنی لارجر بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ پراسیکیوٹر جنرل نیب وقاص ڈار نے حدیبیہ پیپرملز ریفرنس پر اپیل دائر نہ کرنے سے متعلق نیب اجلاس کی کارروائی کے منٹس جمع کرا دیے۔

وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجہ کا دلائل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ریکارڈ سے ثابت ہے کہ گلف فیکٹری کی فروخت سے 12ملین درہم ملے۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ غیرمتنازع حقائق ہیں۔ ہر معاہدے میں بینک کا ذکر ہے لیکن 12 ملین درہم کیش میں لے لیے۔ پاناما کا مقدمہ اپنی نوعیت کا کیس ہے جو دستاویز لائی گئیں اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ اس کہانی کا اہم حصہ قطری سرمایہ کاری ہے۔ وزیراعظم کی تقریر اور طارق شفیع کے بیان حلفی میں قطر میں سرمایہ کاری کا ذکر نہیں تھا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا؟

حسین نواز کے مطابق لندن فلیٹس قطری سرمایہ کاری سے ملے۔ سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ کیا ایسا لگ رہا ہے کہ ٹرائل ہو رہا ہے۔ طارق شفیع کو کٹہرے میں بلا کر سوالات پوچھ لیے جائیں۔ جسٹس عظمت سعیدنے کہاکہ آپ کہتے ہیں لندن فلیٹس 2006ء میں خریدے گئے۔ آپ 13 سال فلیٹس میں رہے انگلی تو آپ کی طرف اٹھے گی۔

سلمان اکرم راجہ کاکہنا تھا کہ انگلی ان کے موکل کی طرف نہیں اٹھ سکتی وہ اپنے موقف پر قائم ہیں۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ یقینا آپ کو قدموں پرہی کھڑا ہونا ہے گھٹنوں پر نہیں۔