Tuesday, April 30, 2024

لانس نائیک محمد محفوظ شہید کا آج چوالیسواں یوم شہادت

لانس نائیک محمد محفوظ شہید کا آج چوالیسواں یوم شہادت
December 17, 2015
لاہور (ویب ڈیسک) لانس نائیک محمد محفوظ شہید 25 اکتوبر 1948ءکو پنڈ ملکاں میں پیدا ہوئے جس کا نام اب محمد محفوظ کے نام کی نسبت سے “بستی محفوظ“ کر دیا گیا ہے۔ لانس نائیک محمد محفوظ شہید کے خاندان کے اکثر لوگ فوج میں تھے۔ ان کے دادا گلزار خاں فوج میں سپاہی تھے جن کو پہلی جنگ عظیم میں اعلیٰ فوجی خدمات پر کئی اعزازی میڈل دیے گئے تاہم ان کے والد ایک متوسط زمیندار تھے جن کو بزرگانِ دین اور اولیائے کرام سے بہت عقیدت تھی۔ وہ خود حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑہ شریف کے مریدین میں سے تھے۔ ان کی والدہ محترمہ سرور جان صوم و صلوٰة کی پابند ایک سگھڑ گھریلو خاتون تھیں جن کی خوب سیرتی نے ان کو محمد محفوظ شہید جیسی عالی رتبہ اولاد کی ماں بنایا۔ محمد محفوظ شہید چار سال کی عمر میں مسجد میں دینی تعلیم کے لئے داخل کرائے گئے۔ ابتدائی دینی تعلیم کے بعد مدرسہ میں داخلہ لیا جس کا نام بھمبر تراڑ سکول تھا اور یہ ان کے گھر سے دو سو میل کے فاصلے پر واقع تھا۔ میٹرک کا امتحان محمد محفوظ شہید نے 1961ءمیں پاس کیا۔ گھر والے چاہتے تھے کہ وہ کوئی ملازمت کر لیں لیکن ان کا شوق شہادت ان کو فوج میں لے گیا۔ 1962ءمیں انہوں نے آرمی جائن کی اور سپاہی کے طور پر ابتدائی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد ان کا تقرر 10 پنجاب رجمنٹ میں ہو گیا۔ صوم و صلوٰة کے پابند محمد محفوظ شہید نے فوج میں رہ کر بھی احکاماتِ دین سے کبھی روگردانی نہ کی۔ نعتیہ کلام ان کو بہت سا یاد تھا جسے وہ اکثر خوش الحانی سے وردِ زبان کرتے رہتے۔ دوستوں کو شوق شوق میں باکسنگ سکھاتے تھے جس کے باعث اکثر لوگ انہیں “ محمد علی کلے“ کہہ کر پکارتے تھے۔ اپنے شوق کو انہوں نے فوج میں رہ کر ایسا رنگ دیا کہ کئی مقابلے جیت کر انعامات حاصل کئے اور ایک زمانے میں مڈل ویٹ باکسنگ چیمپئن بھی رہے۔ سولہ سال کی عمر میں فوجی سپاہی کے طور پر بھرتی ہونے والے محمد محفوظ مردان سے ٹریننگ کے ٹھیک پندرہ ہفتے بعد کوئٹہ میں ڈیوٹی پر چلے گئے۔ کوئٹہ میں انہوں نے ابھی بمشکل دس ماہ گزارے تھے کہ انہیں معرکہ رن کچھ اور راجستھان میں شرکت کا موقع مل گیا۔ یہ ایسا ولولہ انگیز معرکہ تھا کہ محمد محفوظ شہید کے کارنامے اس معرکے میں فوج میں ضرب المثل بن گئے۔ دشمن کا ایک فوجی خاصا اچھا نشانہ باز تھا جو تاک تاک کر کھلے میدان میں پاک فوج کے جوانوں کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنا رہا تھا۔ کتنے ہی جوانوں نے جب شہادت حاصل کر لی تو ایک پاکستانی فوجی سے اپنے جوانوں کی نفری میں واقع ہوتی ہوئی یہ کمی برداشت نہ ہوئی۔ اس نے قہر برساتی آنکھوں سے سامنے مورچے کو غور سے دیکھا اور ایک عزمِ صمیم کے ساتھ اس نے اپنی جان سے بے پروا ہو کر قدم آگے بڑھائے تو دشمن فوجیوں نے اسے گولیوں کی باڑ پر رکھ لیا۔ گولیاں اس فوجی جوان کے جسم میں جابجا پیوست ہو گئیں مگر اس کے بڑھتے ہوئے قدم نہ رکے بلکہ وہ مزید تیزی سے آگے بڑھا اور پھر ایک جست لگا کر دشمن کے گنر پر جا پڑا۔ عین اس وقت ایک گولی اس کا دل چیر کر نکل گئی مگر اس کے آہنی ہاتھ بھارتی گنر کی گردن دبوچ چکے تھے۔ پھر یہ ہاتھ اپنی گرفت کو سخت سے سخت تر کرتے چلے گئے اور جب ہاتھوں کی گرفت نرم پڑی تو دشمن کا گنر ہلاک ہو چکا تھا۔ اسی وقت حسب روایت مکار ہندو فوجیوں میں سے ایک نے پیچھے سے آ کر اس پر سنگین کا وار کیا اور اس کا بے جان جسم دشمن فوجی کے اوپر ڈھیر ہو گیا۔جذبہ شہادت سے سرشار یہ پاکستانی فوجی لانس نائیک محمد محفوظ شہید تھے جو معرکہ کنجری پل کے دوران بے پناہ شجاعت و دلیری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کر گئے۔