Friday, May 3, 2024

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ماحولیاتی چینل کھولنے اور بھارتی ریڈیو کی پراپیگنڈا مہم کا سخت جواب دینے کا فیصلہ

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ماحولیاتی چینل کھولنے اور بھارتی ریڈیو کی پراپیگنڈا مہم کا سخت جواب دینے کا فیصلہ
July 1, 2015
اسلام آباد (92نیوز) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات ونشریات نے ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے عوامی سطح پر شعور کو بیدارکرنے کیلئے علیحدہ میڈیا چینل بنانے کی تجویز پر غور کیلئے ماحولیات اور میٹ آفس سے خصوصی بریفنگ لینے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ بھارت کی جانب سے ریڈیو ٹرانسمیشن کے ذریعے پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا مہم کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے اس کا بھرپور انداز میں جواب دینے کیلئے ہرممکن اقدامات کرنے کی ہدایت بھی دی ہے۔ کمیٹی کو بتایاگیا ہے کہ پاکستان کا اعلیٰ سطح کا انیس رکنی قومی ثقافتی وفداگلے ماہ چین کا دورہ کرے گا۔ ارومچی میں فیسٹیول میں پاکستانی ثقافت کو اجاگر کرے گا۔پاکستان کے تینتیس ممالک کے ساتھ ثقافتی وفودکے تبادلے کیلئے معاہدوں پر بات چیت ہورہی ہے۔ چار ممالک کے ساتھ معاہدے طے پاگئے ہیں۔ انتیس ممالک کے ساتھ رابطے جاری ہیں۔ جاپان ،چین ،کوریا ،تھائی لینڈ سمیت کئی ممالک نے پاکستان میں بدھا کی زندگی پر جامع کتاب کی اشاعت پر حکومت پاکستان کو تعریفی خطوط لکھے ہیں۔ پریس کونسل آف پاکستا ن کو متحرک کرنے کیلئے ادارے میں سینٹ سے نامزدگیوں اور نیوز ایجنسی کی نمائندگی کیلئے ترامیم وزارت کو بھجوادی ہیں۔ شکایت سننے کیلئے کونسل کے تحت کمیشن نے کام شروع کردیا ہے۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا ہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے سمیت ہروہ غیر ملکی ٹی وی چینل جس نے لینڈنگ رائٹس لے رکھے ہیں کی نشریات کو روکنے کا اختیار نہیں ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی اطلاعات ونشریات کا اجلاس چیئرمین پیر محمد اسلم بودلہ کی زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں اراکین طاہراقبال چودھری ،عارفہ خالد پرویز،پروین مسعود بھٹی، زیب جعفر،مریم اورنگزیب، طلال چودھری، عمران ظفرلغاری،بیلم حسنین، اظہرخان جدون،نعیمہ کشور خان،ملک عامرڈوگر کے علاوہ وزارت اطلاعات ونشریات کے سیکرٹری محمد اعظم ،پی آئی او راوتحسین ،ایم ڈی پی ٹی وی عبدالمالک، ڈی جی ریڈیو سید عمران گردیزی،ڈی جی اے پی پی چیئرمین پیمرا سمیت متعلقہ اداروں کے سربراہان نے شرکت کی۔ کمیٹی کو سیکرٹری اطلاعات ونشریات محمد اعظم کی جانب سے ان کی وزارت اور ماتحت اداروں کے کردار کام کرنے کے طریقہ کار اور کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ دی گئی۔ اجلاس کے دوران رکن قومی اسمبلی عمران ظفرلغاری کی جانب سے بی بی سی کی جانب سے ایم کیوایم کے حوالے سے جاری کردہ رپورٹ کے بارے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ بی بی سی کے پاس لینڈنگ رائٹس ہیں اور وہ اپنی نشریات دے سکتا ہے اور اس نے اپنی نشریات میں یہ رپورٹ جاری کی ہے اس سے متعلقہ ریکارڈ پیمرا کے پاس موجود ہے۔ اگر بی بی سی کی جانب سے معاہد ے یا پاکستان کے قوانین کی خلاف ورزی کی کوئی نشاندہی ہو تو اس صورت میں پیمرا معاملے کو اٹھا سکتا ہے۔ اسی سے متعلقہ ایک سوال کے جواب میں سیکرٹری اطلاعات محمد اعظم نے بتایا کہ ہمارے پاس اس رپورٹ کے جھوٹے یا سچے ہونے کو جانچنے کا ابھی کوئی طریقہ کار موجود نہیں ہے اس لیے اس حوالے سے کوئی بات نہیں کی جاسکتی۔ چیئرمین پریس کونسل آف پاکستان نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میڈیا کے ضابطہ اخلاق سے متعلقہ قوانین کو حتمی شکل دی گئی ہے اور وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید اور ان کی ٹیم کی جانب سے اس سلسلے میں بڑی محنت سے پیش رفت ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پریس کونسل آف پاکستان میں قومی اسمبلی کے دو اراکین جن میں سے ایک وزیراعظم جبکہ دوسرا اپوزیشن لیڈر کی جانب سے نامزدکردہ ہیں اور اب کونسل نے سینٹ اور خبررساں ادارے کو نمائندگی دینے کی بھی تجویز ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کونسل کو ابھی تک 86شکایات موصول ہوئی ہیں، کارروائی کی سفارشات حکومت کو بھجوائی گئی ہیں۔ ایم ڈی پی ٹی وی نے بتایا کہ پہلی بار کرنٹ افیئرز کے پروگراموں میں حکومت اور اپوزیشن کو مساوری نمائندگی دی جارہی ہے۔ پی ٹی وی کی کارکردگی پر کمیٹی نے الگ سے جائزہ اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کمیٹی نے تمام ہوائی اڈوں، سفارتخانوں پاکستانی مشنز قومی وصوبائی اسمبلیوں کی لائبریریوں میں لائف آف بدھا کی کتابیں بھجوانے کی ہدایت کی ہے۔ سیکرٹری نے بتایا کہ نصاب میں قومی ورثہ وثقافت کے مضامین شامل کرنے کیلئے سفارشات کو حتمی شکل دے کر ان کو وزارت تعلیم کو بھجوا دیا گیا ہے۔بریفنگ کے دوران آگاہ کیا گیا کہ ملک میں 2869اخبارات رسائل اور جرائد شائع ہورہے ہیں۔ ان میں 1477یومیہ شائع ہونے والے اخبارات ہیں۔ جولائی 2014سے ابتک 432اخبارات کو اے بی سی سرٹیفکیٹ جاری کیے گئے ہیں۔ کمیٹی نے پاکستان کے قومی ورثہ کے معاملے پر بھی الگ سے جائزہ اجلاس اور سب کمیٹیاں بنانے پر اتفاق کیا ہے۔ سیکرٹری اطلاعات نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ قومی ورثہ اور ذیلی اداروں کے حالات کار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اس حوالے سے مختلف ادبی حلقوں نے تحفظات کا اظہار بھی کیا۔