Saturday, May 18, 2024

غزلوں کے رئیس، بے باک صحافی اور تحریک آزادی کے مجاہد مولانا حسرت موہانی کو ہم سے بچھڑے پینسٹھ سال ہو گئے

غزلوں کے رئیس، بے باک صحافی اور تحریک آزادی کے مجاہد مولانا حسرت موہانی کو ہم سے بچھڑے پینسٹھ سال ہو گئے
May 13, 2016
کراچی (نائنٹی ٹو نیوز) غزلوں کے رئیس، نڈر اور بے باک صحافی اور تحریک آزادی کے مجاہد مولانا حسرت موہانی کو ہم سے بچھڑے پینسٹھ سال ہوگئے مگر وہ خوبصورت شاعری کی بدولت آج بھی دلوں میں زندہ ہیں۔ غزل گو شعراء کے رئیس سید فضل الحسن المعروف مولانا حسرت موہانی 1875 کو ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے معروف علاقے موہان میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی۔ 1903 میں علی گڑھ سے بی اے کیا اور اسی برس علی گڑھ سے ایک رسالہ اردوئے معلّیٰ جاری کیا۔ انہوں نے محض لاٹھیاں اور گولیاں نہیں کھائی تھیں بلکہ قید وبند کی صعوبتیں بھی اٹھائی تھیں۔ اسی مناسبت سے ان کا یہ شعر بھی بہت مشہور ہوا۔ ہے مشقِ سخن جاری چکی کی مشقت بھی اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی ان کی حق گوئی کے باعث ہندوستان بھر کے سیاسی قائدین بشمول قائداعظم محمد علی جناح آپ کی بڑی تکریم و تعظیم کرتے تھے۔ مولانا نے اپنی شاعری میں عشق، وصل اور محبوب کے تغافل کو اس سادگی سے بیان کیا کہ پڑھنے والے عش عش کر اٹھے۔ ان کی شاعری کا مجموعہ کلیات حسرت موہانی اب تک بہت مقبول ہے۔ ان کی دیگر مشہور کتابوں میں شارح کلامِ غالب اور نکاتِ سخن شامل ہیں۔ مشاہدات زنداں حسرت کی آپ بیتی تھی جس نے قید فرنگ کے نام سے شہرت پائی۔ شاعری، صحافت اور سیاست کا یہ قلندر 13 مئی 1951کو لکھنؤ میں جہان فانی سے کوچ کرگیا۔