Friday, April 26, 2024

پی ڈی ایم نے حکومت کو 31 جنوری تک مستعفی ہونے کی ڈیڈلائن دیدی

پی ڈی ایم نے حکومت کو 31 جنوری تک مستعفی ہونے کی ڈیڈلائن دیدی
December 14, 2020

لاہور (92 نیوز) پی ڈی ایم نے حکومت کو 31 جنوری تک مستعفی ہونے کی ڈیڈلائن دیدی۔ پی ڈی ایم کے قائد مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ عوام لانگ مارچ کی تیاری کریں۔ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز کہتی ہیں کہ لاہور جلسے پر حکومتی صفوں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔

پی ڈی ایم کے سر براہی اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا، آج یہاں مریم نوازصاحبہ کی میزبانی میں پی ڈی ایم کا ہنگامی سربراہی اجلاس ہوا، اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی کہ کچھ چیزوں کو تفصیل کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کیا جائے اور ابہام دور کردیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ 31 دسمبر تک پی ڈی ایم کے ارکان اسمبلی اپنے استعفے اپنی جماعت کے قائدین کو پیش کردیں گے۔ آج ہم حکومت کو واضح کردینا چاہتے ہیں 31 جنوری تک حکومت مستعفی ہوجائے۔ اگر 31 جنوری تک حکومت مستعفی نہیں ہوتی تو پھر سربراہی اجلاس لانگ مارچ کا اعلان کردے گا۔

اُن کا کہنا تھا، پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کے کارکن اور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ آج سے ہی لانگ مارچ کی تیاریاں شروع کردیں۔ آج پی ڈی ایم کے تمام سربراہان نے تفصیلی اعلامیے پر بھی دستخط کردیئے ہیں۔

قائد پی ڈی ایم بولے کہ پی ڈی ایم کی اسٹیئرنگ کمیٹی نے صوبوں کو لانگ مارچ کی تیاریوں کے سلسلے میں جو شیڈول دیا وہ برقرار رہے گا۔ مرکزی عہدیداران اور اسٹیرنگ کمیٹی کے ارکان جن صوبوں سے تعلق رکھتے ہیں وہ اپنے صوبے میں میزبان کمیٹی ہوں گے۔ اپنے صوبوں کے تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور ذمہ داران ان کے اجلاس منعقد کریں گے۔ لانگ مارچ کی تیاریوں کی نگرانی بھی کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم تو میڈیا کی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں، میڈیا کی آزادی کی جنگ میں میڈیا کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ لاہور میں قومی سطح کا بڑا ایونٹ منعقد ہوا جسے تاریخ اس طرح یاد کرے گی جیسے 1940ء کے اجتماع کو یاد کرتی ہے۔

سیاسی جماعتیں اپنا الگ الگ منشور رکھتی ہیں اور اسی بنیاد پر الیکشن لڑتی ہیں، نئی آنے والی حکومت جمہوری ہوگی۔ ہماری طرف سے واضح ہے کہ ہم ان سے کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں۔ یہ اگراسمبلیاں تحلیل کرکے الیکشن کا اعلان کرتے ہیں تو پی ڈی ایم فیصلہ کرکے بات چیت کرسکتی ہے۔ یہ فیصلہ بھی پی ڈی ایم کرے گی ایک جماعت فیصلہ نہیں کرے گی۔

ادھر مریم نواز بولیں کہ جلسے سے پہلے ہونے والی میری ریلیوں کو پورے پاکستان نے دیکھا، پوری زندگی میں ایسا جلسہ نہیں دیکھا۔ حکومتی ہتھکنڈوں کے باوجود عوام نے کسی چیز کی پرواہ نہیں کی۔ مجھے اس بات کا گلہ ہے کہ جلسہ گاہ کو چھوٹا رکھا گیا، جس وجہ سے لوگوں کو باہر کھڑے ہوکر جلسہ سننا پڑا، ایک جلسہ اندر اور ایک جلسہ باہر ہو رہا تھا۔ شاہد خاقان کو بھی جلسہ میں پہنچنے کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اتنی شدید سردی کے باوجود مجھے کوئی کرسی نظر نہیں آئی، لاکھوں لوگوں نے کھڑے ہو کر جلسہ سنا۔ میں حیران ہوں کہ اتنا جذبہ ساری زندگی نہیں دیکھا۔ میں نے کل جلسے میں کہا تھا کہ میری قلفی جم گئی، وہ بات میں نے سچ کہی تھی۔ میری طبیعت بھی کچھ خراب ہوگئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم عوام کی عدالت میں جاچکے ہیں، اب عوام کے ساتھ ہی بات ہوگی، سلیکٹڈ ہو یا سلیکٹرز اب انہیں پیچھے جانا پڑے گا۔ ہماری جماعتیں مختلف ہیں لیکن مشترکہ عوامی ایجنڈا پر متفق ہیں۔ ہم حریف جماعتیں ضرور ہیں لیکن ایک دوسرے کے دشمن نہیں ہیں۔

ہم سب ملکر تمام فیصلے کرینگے، اب مارچ کرنے کا وقت ہے، بلاول

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا تھا، ہم اکیلے نہیں، ہم سب ایک ہیں، ہم سب مل کر تمام فیصلے کریں گے۔ پی ڈی ایم نے اپنا موقف کل لاہور جلسے میں پیش کردیا تھا۔ اب مارچ کرنے کا وقت ہے۔ عمران خان کا استعفیٰ لینے کا وقت ہے۔

انہوں نے کہا کہ تمام سینئر رہنماؤں کو اپنی رائے دینے کا حق ہے، سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی جو بھی فیصلہ کرتی ہے اس پر میں اور اعتزاز احسن عمل کرنے کے پابند ہیں۔ شہبازشریف سے روایتی طور پر ملنے جا رہا ہوں، درخواست دے دی ہے، اب دیکھتے ہیں ملنے کی اجازت ملتی ہے یا نہیں۔