Monday, May 13, 2024

علامہ اقبالؒ کا خطبہ الہٰ آباد پاکستان کیلئے نشان منزل بنا

علامہ اقبالؒ کا خطبہ الہٰ آباد پاکستان کیلئے نشان منزل بنا
August 14, 2020
لاہور ( 92 نیوز) قوموں کی زندگی کا سفر طویل ہوتا ہے اور راستے میں کئی پڑاؤ آتے ہیں لیکن کچھ مقامات اتنے اہم ہوتے ہیں کہ وہ نشان منزل بن جاتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ کا الٰہ آباد کا خطبہ دسمبر1930 بھی تحریک پاکستان کا ایک ایسا ہی پڑاؤ تھا جو نشان منزل بن گیا اور جس نے شاعر مشرق علامہ اقبال کو مصور پاکستان کے خطاب سے نوازا۔ علامہ اقبالؒ کے خطبہ الٰہ آباد نے مطالبہ پاکستان کی بنیاد اور اصول کو واضح کردیا تھا اور وہ تھا اسلامی تمدن کو زندہ رکھنے کیلئے مسلمان اکثریتی علاقوں پر مشتمل ایک اسلامی ریاست کا قیام اور یہی وہ اصول تھا جس کی بنیاد پر قرار داد پاکستان تشکیل دی گئی اور منظور کی گئی۔ شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے دسمبر 1930 میں اپنے خطبہ الہ آباد میں برصغیر کے مسلمانوں کے جُداگانہ قومی وجود کو بنیاد بناتے ہوئے اُن کے لیے الگ ملک کا مطالبہ پیش کیا۔ انہوں نے اپنے خطبے میں کہا کہ میں پنجاب ، شمالی مغربی سرحدی صوبہ، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کی صورت میں متحد دیکھنا چاہتا ہوں میرے نزدیک برٹش امپائر کے اندر یا اُس سے باہر ایک ایسی خود اختیار مربوط مسلم ریاست کی تشکیل مسلمانوں کا بالخصوص شمالی مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے۔ علامہ اقبالؒ کے خطبہ میں قرآن و سنت اور اسلام کا بار بار ذکر ملتا ہے ان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ اسلام، اس کے قانون و ریاست، اس کی تہذیب، اس کی تاریخ اور ادب پڑھنے میں گزارا ہے۔ میرے خیال میں انڈیا کے مسلمانوں نے پکا ارادہ کیا ہوا ہے کہ وہ اسلام کی روح کے ساتھ مخلص رہیں گے، میں یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ آپ کی آپ کے فیصلوں میں رہنمائی نہ کروں لیکن آپ کے شعور میں واضح طور پر وہ بنیادی اصول لانے کی عاجزانہ کوشش کروں جو ان فیصلوں کی خصوصیات کو متعین کر دیں۔ قائد اعظم کا علامہ اقبال کے کردار اور بصیرت کا اعتراف کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اقبال ایک عظیم شاعر اور مفکر ہوتے ہوئے کسی سیاستدان سے کم نہ تھے۔ اسلام کے اصولوں پر ان کے پختہ عقیدے اور ایمان کی بدولت وہ ان چندہستیوں میں سے ایک تھے جس نے ہندوستان کے شمال مشرقی خطوں میں ایک اسلامی ریاست کے ممکنہ انعقاد پر غور کیا۔ تیسری گول میز کانفرنس کے موقع پر6 دسمبر1933 کو علامہ اقبال نے دل کی بات کھل کر بیان کردی تھی جو دراصل1930 کے خطبے ہی کاشاخسانہ تھی۔ انہوں نے نہرو کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا ہندوستان کے مسئلے کا واحد حل یہی ہے کہ ملک کو مذہبی، تاریخی اور تمدنی بنیادوں پر تقسیم کردیا جائے۔