Tuesday, April 23, 2024

ایم کیو ایم کے سرگرم کارکن اور ٹارگٹ کلر صولت مرزا کو پھانسی مچھ جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، میت ایدھی ایمبولینس پر کوئٹہ روانہ جہاں پی آئی اے کی پرواز سے کراچی منتقل کی جائیگی

ایم کیو ایم کے سرگرم کارکن اور ٹارگٹ کلر صولت مرزا کو پھانسی مچھ جیل میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا، میت ایدھی ایمبولینس پر کوئٹہ روانہ جہاں پی آئی اے کی پرواز سے کراچی منتقل کی جائیگی
May 12, 2015
کراچی (نائنٹی ٹو نیوز) صولت مرزا کو تمام اپیلیں خارج ہونے کے بعد مچھ جیل میں پھانسی کی سزا دے دی گئی اور ڈاکٹروں کی جانب سے موت کی تصدیق کے بعد اس کی میت ورثا کے حوالے کر دی گئی، میت کو ایدھی ایمبولینس کے ذریعے کوئٹہ پہنچایا گیا ہے جہاں سے دن دو بجے بذریعہ جہاز کوئٹہ سے تدفن کیلئے کراچی لائی جائیگی۔ وہ پولیس افسروں سمیت کئی افراد کی ٹارگٹ کلنگ کا مجرم تھا۔ صولت مرزا کو انیس سو اٹھانوے میں سی آئی اے نے حراست میں لیا تھا جبکہ اس کو سولہ سال قبل پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ شاہد حامد کے لواحقین نے صولت مرزا کو معاف کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ صولت مرزا کی جانب سے ایک ویڈیو بیان میں اعتراف کیا گیا کہ اس نے الطاف حسین کی ہدایت پر قتل کیا جس پر صدر نے اس کی پھانسی پر عملدرآمد روک دیا اور متحدہ کے خلاف تحقیقات شروع کر دیں جس پر الطاف حسین نے صولت مرزا کے اعترافی بیان کو متحدہ قومی موومنٹ کیخلاف سازش قرار دیا۔ صولت مرز اکی پھانسی کئی بار روکی گئی اور آج تقریباً اٹھارہ برس بعد مجرم منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ نائنٹی ٹو نیوز نے صولت مرزا کا سترہ سال پہلے چوبیس دسمبر انیس سو اٹھانوے کو ریکارڈ کیا جانے والا پہلا اعترافی بیان حاصل کر لیا جو کہ دفعہ 164 کے تحت ریکارڈ کیا گیا تھا جس کے مطابق اس نے اپنا تعلق ایم کیو ایم سے بتایا جبکہ پہلی واردات میں بس کو نذر آتش کیا اور اس کے علاوہ کئی وارداتوں کا اعتراف بھی کیا۔ انیس سو اٹھانوے میں دیئے گئے صولت مرزا کے اعترافی بیان کے مطابق وہ بطور کارکن پوسٹر لگانے اور چندہ جمع کرنے کا کام کیا کرتا ہے۔ انیس سو بیانوے میں وہ کراچی میں جاری آپریشن کے خوف سے اسلام آباد فرار ہو گیا تھا۔ انیس سو چورانوے میں تیموریہ تھانے کے تین اہلکاروں کو قتل کیا اور اسی سال ایک ڈی ایس پی اور اس کے محافظ کی جان لی۔ انیس سو پچانوے میں پولیس کلرک، ایک مخبر شاہنواز اور سب انسپکٹر کو قتل کیا جبکہ اسی سال مخبری کے شبے میں ایک شخص عامر کی بھی جان لی۔ اعترافی بیان کے مطابق اس کا دو بار پولیس سے مقابلہ ہوا۔ مارچ انیس سو پچانوے میں پہلے پولیس مقابلے میں ساتھی آصف ہلاک ہوا، مئی انیس سو پچانوے میں شارع نور جہاں پر رینجرز سے مقابلہ کیا جبکہ جون انیس سو پچانوے کو تھانہ تیموریہ پر حملہ کیا۔ اکتوبر انیس سو پچانوے میں مخالف گروپ کے کارکن کو قتل کیا جبکہ نومبر انیس سو پچانوے میں دوسری بار پولیس سے مقابلہ کیا۔ انیس سو ستانوے میں ایم ڈی کی ای ایس سی شاہد حامد اور ان کے ڈرائیور کا قتل کیا، شاہد حامد کے قتل کے بعد سری لنکا اور پھر بنکاک بھاگ گیا۔ دسمبر انیس سو اٹھانوے کو بنکاک سے واپسی پر ایس پی سی آئی اے چودھری محمد اسلم نے گرفتار کیا۔ آخری وقت میں صولت مرزا بار بار جیل حکام سے اپنی سزا کے مؤخر ہونے سے متعلق پوچھتے رہے۔ صولت مرزا کے طبی معائنے کے لیے ڈاکٹر سجاد حیدر مچھ جیل میں موجود تھے جبکہ جوڈیشل مجسٹریٹ ہدایت اللہ اور ڈپٹی سپرنٹینڈنٹ جیل سکندر کاکڑ بھی اس موقع پر مچھ جیل میں موجود رہے۔ صولت مرزا نے 1998 میں کے ای ایس سی کے ایم ڈی شاہ حامد کو ان کے گھر کے قریب فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا، فائرنگ سے شاہد حامد کا گارڈ اور ڈرائیور بھی جاں بحق ہو گئے تھے، اسے سولہ سال قبل پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔ شاہد حامد کے لواحقین نے صولت مرزا کو معاف کرنے سے انکار کر دیا تھا۔