Saturday, May 11, 2024

صدارتی آرڈیننس کیخلاف درخواست پر حتمی دلائل ، معاونین سے رائے طلب

صدارتی آرڈیننس کیخلاف درخواست پر حتمی دلائل ، معاونین سے رائے طلب
February 18, 2020
اسلام آباد ( 92 نیوز) صدارتی آرڈیننس کےخلاف درخواست پراسلام آباد ہائی کورٹ نے حتمی دلائل اور معاونین سے رائے طلب کرلی، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے بنی ہائی کورٹ کو کیا آرڈیننس کے ذریعے ختم کیا جاسکتا ہے؟،  سوال اٹھایا کہ کیا یہ جمہوریت ہے ، آپ کلونیئل لاء پر بات نہ کریں، 1973 کے آئین کی طرف آئیں۔ مسلم لیگ ن کی 8 عدد صدارتی آرڈیننسزکےخلاف درخواست پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہرمن اللہ نے سماعت کی ۔ درخواست گزارمحسن شاہنواز رانجھا نے دلائل دیئے میں موقف اپنایا کہ صدر کو صرف جنگ کی طرح کی صورتحال میں آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار ہے ، جس کی ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھرنے نفی کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ مستقل ریگولیٹرکو ختم کر سکتے ہیں پھر تو ہائی کورٹ بھی ختم کر سکتے ہیں ، یہ ہائی کورٹ 2010 کے ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت بنی ، کیا یہ ٹھیک ہے کہ آپ آرڈیننس کے ذریعے اس ہائی کورٹ کو ختم کر دیں۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو آرٹیکل 89 پڑھنے کی ہدایت کی ، کہا کہ آرڈیننس کے حوالے سے کیا ایگزیکٹو کو یہ اختیار نارمل حالات میں حاصل ہیں؟ ، اس کے مطابق تو آپ آرڈیننس صرف جنگ کی حالت میں جاری کر سکتے ہیں ، جیسے کروناوائرس کے حوالے سے معاملہ ابھی موجود ہے، آپ نے مطمئن کرنا ہے کہ یہ قانون سازی مختلف کس طرح ہے۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو پرانی تاریخ کا حوالہ دینے سے روک دیا ، ریمارکس دیے کہ آپ ہر دفعہ کلونیئل لاء کی طرف کیوں چلے جاتے ہیں ، یہ جمہوریت ہے۔۔1973 کے آئین کی طرف آئیں ، تینوں آئین ایک جیسے نہیں ہیں، ان میں فرق ہے۔ عدالت نے حتمی دلائل اور معاونین سے رائے طلب کرتے ہوئے سماعت 12مارچ تک ملتوی کردی۔