Sunday, May 12, 2024

شہرہ آفاق غزلوں کے خالق احمد فراز کو مداحوں سے بچھڑے 12برس بیت گئے

شہرہ آفاق غزلوں کے خالق احمد فراز کو مداحوں سے بچھڑے 12برس بیت گئے
August 25, 2020

لاہور (92 نیوز) شہرہ آفاق غزلوں کے خالق احمد فراز کو مداحوں سے بچھڑے 12برس بیت گئے۔

اب  کہ ہم بچھڑے توشایدکبھی  خوابوں  میں ملیں

جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

اردو کے نامور شاعر سید احمد شاہ، جنہیں دنیا  احمد فراز کے نام سے جانتی  ہے 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے ، شاعری گویا انہیں  ورثے میں ملی۔فراز  کے والد سید محمد شاہ کا شمار برصغیر کےممتاز شعرا میں ہوتا  ہے ۔

 سلسلے توڑ گیا وہ  ،سبھی جاتے  جاتے

احمد  فراز  ریڈیو پاکستان ، لوک ورثہ ، اکادمی ادبیات اور نیشنل بک فاؤنڈیشن سمیت کئی اداروں سے وابستہ رہے  ۔ ۔فراز 1960ء کی دہائی میں زیرتعلیم ہی تھے جب ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ ’’تنہا تنہا‘‘ شائع ہوا۔ اس کے بعد شہرت کی سیڑھی پر رکھا گیا قدم بڑھتا ہی گیا۔

سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں

سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے

سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

فراز کی شاعری میں غم جاناں بھی ہے اور غم  دوراں بھی۔ ۔احمد فراز کے  مجموعہ ہائے کلام میں تنہا تنہا ، خواب گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کرو، درد آشوب ، نایافت ،نابینا شہر میں آئینہ، بے آواز گلی کوچوں میں، پس انداز موسم، شب خون ، یہ سب میری آوازیں ہیں، میرے خواب ریزہ ریزہ، اے عشق جفاپیشہ۔  اور جاناں جاناں شامل ہیںْ

اب کے تجدید وفا کا نہیں امکاں جاناں

یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں

یوں ہی موسم کی ادا دیکھ کے یاد آیا ہے

کس قدر جلد بدل جاتے ہیں انساں جاناں

حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں احمد فراز کو ''ستارہ امتیاز'' اور ''ہلال امتیاز'' جبکہ 2010ء میں بعد از مرگ '' ہلال پاکستان'' سے بھی نوازا ۔اردو ادب کا یہ روشن ستارہ  25 اگست 2008ء کو جہاں فانی  سے کوچ  کیا۔

 احمد فراز اسلام آباد میں آسودہ خاک  ہوئے،لطیف انسانی جذبوں کے پُراثر اظہار کی بدولت احمد  فراز کی شاعری آج بھی تروتازہ محسوس ہوتی ہے۔

رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

کچھ تو مرے پندار محبت کا بھرم رکھ

تو بھی تو کبھی مجھ کو منانے کے لیے آ

پہلے سے مراسم نہ سہی پھر بھی کبھی تو

رسم و رہ دنیا ہی نبھانے کے لیے آ

کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم

تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ

اک عمر سے ہوں لذت گریہ سے بھی محروم

اے راحت جاں مجھ کو رلانے کے لیے آ

اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں

یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لئے آ