Thursday, April 18, 2024

شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی بریت کی درخواستیں مسترد

شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی بریت کی درخواستیں مسترد
May 13, 2019
کراچی ( 92 نیوز ) سندھ ہائیکورٹ نے شاہ زیب قتل کیس کے مرکزی مجرم شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی بریت کی درخواستیں مسترد کر دیں ، عدالت نے مجرموں کی سزائے موت عمر قید میں تبدیل کر دی ۔ عدالت عالیہ نے مجرم شاہ رخ جتوئی اور دیگر کی سزاؤں کیخلاف اپیلوں کا فیصلہ سنایا ، عدالت نے مجرم شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا جبکہ مجرم سجاد تالپور اور غلام مرتضی کی عمر قید کی سزا برقرار رکھی ۔ اس سے قبل سندھ ہائیکورٹ نے شاہ زیب قتل کیس کے مرکزی ملزم  شاہ رخ جتوئی اور اُس کے ساتھیوں کو سنائی گئی سزا ئے  موت کالعدم قرار دے دی تھی  ۔

سندھ ہائیکورٹ نے پراسیکیوشن پر سوالات اٹھا دیے

ملزموں کی درخواست کی سماعت سندھ ہائی کورٹ  میں ہوئی جہاں ملزموں کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل میں موقف اپنایا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔ سزا کے وقت ملزم شاہ رخ کی عمر بھی اٹھارہ سال سے کم تھی۔ ملزموں کے وکیل نے موقف اپنایاکہ  جو برتھ سرٹیفکیٹ پیش کیا گیا اُس پر ملزم کے والد کا نام بھی غلط ہے جبکہ جھگڑا بھی ذاتی نوعیت کا ہے اس لئے ٹرائل تو دہشت گردی کی عدالت کا بنتا ہی نہیں۔ اس موقع پر پراسیکیوٹر جنرل شہادت اعوان نے عدالت کو بتایا کہ مقتول شاہ زیب اور شاہ رخ کی فیملی کے ساتھ صلح ہوچکی ہے، صرف دہشتگردی کے پہلو کا جائزہ لینا باقی ہے۔ فاروق ایچ نائیک کے دلائل سننےکے بعد سندھ ہائی کورٹ نے  مرکزی ملزم شاہ رخ جتوئی اور اُس کے ساتھیوں سراج تالپور، سجاد تالپور اور غلام مرتضی کی سزا کالعدم قرار دے دی تھی ۔ شاہ زیب کے والدین کی جانب سے صلح کے باوجود سول سوسائٹی نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ،  سول سوسائٹی نے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں درخواست دائر کی تھی ۔ درخواست جبران ناصر، جمشید رضا محمود، عافیہ شہر بانو ضیا سمیت 10شہریوں کی جانب سے دائرکی گئی تھی

دیت کے نام پررقم نہیں لی، قاتلوں کو دباؤمیں آکرمعاف کیا، والد شاہ زیب

درخواست میں کہا گیا کہ اہل خانہ صلح کر چکے ہیں اور حکومت ملزمان کی طرف داری کر رہی ہے ۔  فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ سول سوسائٹی اس کیس کو آگے لے کر چلے گی۔ درخواست گزار نے کہا کہ یہ ذاتی نوعیت کا قتل نہیں۔ اس سے معاشرے پر سنگین نتائج برآمد ہوئے۔ سپریم کورٹ کے متعدد فیصلوں کے تحت شاہ زیب قتل کیس دہشت گردی کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ ملزمان کو سزا نہ دی گئی تو معاشرے میں سنگین بگاڑ پیدا ہو جائے گا۔ اپیل میں استدعا کی گئی کہ سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے کر سزائیں بحال کی جائیں۔ سول سوسائٹی کی جانب سے سپریم کورٹ رجسٹری میں درخواست دائر ہونے پر اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے شاہ زیب قتل کیس کی فائل منگوالی اور  کیس پرنسپل سیٹ سپریم کورٹ اسلام آباد منتقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے جلد سماعت کیلئے مقرر کرنے کی ہدایت بھی کی ۔ گزشتہ برس 13 جنوری کو سپریم کورٹ رجسٹری کراچی نے سول سوسائٹی کی اپیل سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے  شاہ رخ جتوئی سمیت تمام ملزموں کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دیا ۔ یکم فروری 2018 کو سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے کر تمام ملزموں کی دوبارہ گرفتاری کا حکم دے دیا۔ قتل  کیس میں دہشتگردی کی دفعات بھی  بحال کیں ۔ سول سوسائٹی کی درخواست پر سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے سندھ ہائیکورٹ کوکیس کی دوبارہ سماعت کر کے دو ماہ میں  نمٹانے کا حکم جاری کر دیا۔ عدالت عالیہ نے شاہ رخ جتوئی،سراج تالپور اورسجاد تالپور کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا بھی حکم صادر کیا۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ملزم نے وکٹری کا نشان  خوشی میں بنایا تھا ؟ ، جبکہ ملزم شاہ رخ جتوئی کے وکیل  لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ وکٹری کا نشان بچے کو لے ڈوبا۔