Friday, May 17, 2024

سندھ ہائیکورٹ کی زیادتی کیسز میں مربوط نظام وضع کرنے کی ہدایت

سندھ ہائیکورٹ کی زیادتی کیسز میں مربوط نظام وضع کرنے کی ہدایت
February 13, 2020
کراچی ( 92 نیوز) سندھ ہائیکورٹ نے زیادتی سے متعلق کیسز میں مربوط نظام وضع کرنے کی ہدایت کردی  اور ڈی این اے ٹیسٹ بروقت کرانے کو یقینی بنانے کا حکم دے دیا  ۔ عدالت نے ریمارکس میں کہا پولیس کے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو وہ شہریوں سے ہی مانگیں گے ، جبکہ فیصلے کو مذاق نہ سمجھا جائے  آئی جی ہو یا کوئی بھی عمل نہ کیا تو سخت کارروائی ہوگی ۔ عدالت نے سیشن عدالتوں، انسداد دہشت گردی عدالتوں میں کیسز کی تفصیلات 27 فروری کو طلب کرلی۔سندھ ہائیکورٹ کے جج جسٹس محمد علی مظہر نے کہا ریپ کیسز میں اسکریننگ تک نہیں ہورہی، رخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ ڈی این اے کروانے کے بعد ایک تفتیشی افسر 6 ماہ تک کِٹ لیکر گھومتے رہے ۔ عدالت کو بتایا گیا کہ 2016 اور 2017 کے کیسز میں رپورٹس نہیں آئیں  ، جس پر عدالت نے ریمارکس میں کہا پولیس کی کیا کارکردگی ہے ؟ ، آئی جی ہی پولیس کی کارکردگی کے اصل ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ عدالت کا کہنا تھا ڈی این اے نہیں ہوگا تو کیا زبردستی پھانسی پر چڑھادیں  ، انسداد دہشت گردی عدالت کے جج بھی صحیح کام نہیں کر رہے ، کیا ایسے ججوں کیخلاف بھی کارروائی نہیں ہونی چاہیے ۔ عدالت نے ریپ کیسز میں سندھ حکومت کو فنڈز کا جائزہ لینے کا حکم دیا  اور کہا کہ ناقص تفتیش کرنے والے ایس ایچ او اور تفتیشی افسران کیخلاف کارروائی کی جائے  اور آئی جی سندھ ریپ کیسز کی خود نگرانی کریں ۔ عدالت نے جامعہ کراچی اور جام شورو یونیورسٹی کے وائس چانسلرز سے ڈی این اے رپورٹ میں تاخیر پر وضاحت طلب کرلی  جبکہ آئی جی کی درخواست پر فنڈز جاری کرنے کیلئے سندھ حکومت کو ہدایات جاری کردیں ۔ زیادتی کے کیسز میں ملزمان کو سخت سزا دلوانے کیلئے آئی جی سندھ عدالت میں پیش ہوئے تو میڈیا نے گھیر لیا  اور تبادلوں سے متعلق سوالات کیے  لیکن سید کلیم امام کسی بھی سوال کا جواب دینے کی بجائے مسکراتے ہوئے چلے گئے ۔