Friday, April 26, 2024

سائنسدان روشنی کو نکیل ڈالنے میں کامیاب

سائنسدان روشنی کو نکیل ڈالنے میں کامیاب
December 3, 2015
ایڈن برگ (ویب ڈیسک) خلا میں روشنی کی رفتار ایک لاکھ 86 ہزار 282 میل فی سیکنڈ یا تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے جسے سائنسی اکائی تسلیم کیا جاتا ہے۔ سکاٹ لینڈ کے سائنس دان اس رفتار کو کم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس سے روشنی کے حوالے سے رائج تصورات تبدیل ہو جائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق اب تک یہی سمجھا جاتا تھا کہ روشنی پانی یا شیشے جیسے دوسرے شفاف مادوں میں سے گزرتے ہوئے قدرے سست ہو جاتی ہے لیکن آزاد فضا میں آ کر یہ دوبارہ اپنی اصل رفتار اختیار کر لیتی ہے تاہم حالیہ تجربے نے یہ تصور بدل کر رکھ دیا ہے۔ سائنس دانوں نے روشنی کے فوٹان ذرات ایک خصوصی ماسک میں داخل کیے تو ان کی شکل تبدیل ہو گئی اور وہ روشنی کی اصل رفتار سے سست پڑ گئے جب ان ذرات کو ماسک سے ہٹا کر عام فضا میں بھیجا گیا تب بھی وہ روشنی کی رفتار سے سست سفر کر رہے تھے۔ روشنی کی رفتار سست کرنا محض ایک سائنسی تجربہ ہی نہیں بلکہ اس کے عملی استعمال بھی ہیں۔ سائنس دانوں نے فوٹانز کے لیے ایک خصوصی ریس ٹریک بنایا جس میں انہیں جوڑوں کی صورت میں داخل کیا گیا۔ ان میں ایک فوٹان کو اس کی اصل حالت میں رہنے دیا گیا جبکہ دوسرے کو ماسک میں رکھ دیا گیا۔ اس ماسک نے فوٹانز کی شکل بدل دی اور وہ روشنی کی رفتار سے سست رفتار پر سفر کرنے لگے۔ اگرچہ یہ فرق ایک ملی میٹر کے کئی لاکھویں حصے کے برابر ہے تاہم اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ تبدیل شدہ فوٹان نا صرف ماسک کے اندر سست پڑ جاتے ہیں بلکہ اس سے باہر نکلنے کے بعد بھی سست ہی رہتے ہیں۔ روشنی کو اجرام فلکی کا باہمی فاصلہ ماپنے سمیت بعض انتہائی حساس پیمائشوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس تجربے کے بعد سائنس دانوں کو چھوٹی پیمائشوں کے لیے روشنی کو استعمال کرتے وقت فوٹان کی شکل کو بھی مدنظر رکھنا پڑے گا۔ مزید برآں اس کامیابی نے روشنی پر انسانی اختیار کے بارے میں بھی نئے امکانات کے در وا کر دیے ہیں۔ سائنس دان اس بات پر غوروفکر میں مصروف ہیں کہ آیا روشنی پر اختیار سے انسان وقت پر بھی دسترس حاصل کر لے گا اور کیا یہ کامیابی انسان کے لیے زمانی سفر کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔