Saturday, May 11, 2024

رواں برس چین اور امریکا تجارتی جنگ کےباعث معاشی تنزلی کا شکار ہوئے

رواں برس چین اور امریکا تجارتی جنگ کےباعث معاشی تنزلی کا شکار ہوئے
December 26, 2019
اسلام آباد ( 92 نیوز) ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بنتے ہی امریکا اور چین کے درمیان شروع ہونے والی تجارتی جنگ کےباعث رواں برس چین اور امریکا تجارتی جنگ کےباعث معاشی تنزلی کا شکار ہوئے ۔ امریکا روس سرد جنگ کے بعد  ، چین امریکا تجارتی جنگ ایک ایسا غیر روایتی محاذ تھا جس نے ساری دنیا کو متاثر کیا۔ امریکا نے رواں برس یکم جنوری کو 200 بلین ڈالر کی چینی مصنوعات پر اضافی ٹیرف عائد کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا تاہم اسے مارچ 2019 کے اوائل تک مؤخر کرنے کے ابتدائی فیصلے کے بعد24 فروری کوٹرمپ نے یہ اعلان کیا کہ وہ ٹیرف عائد کرنے کا منصوبہ مزید کچھ دیر کیلئے ٹال رہے ہیں۔ تقریباً ڈھائی ماہ بعد یعنی 5 مئی 2019کو ٹرمپ نے حیرت انگیز ٹویٹ داغ دیا جس میں انہوں نے 200 بلین ڈالر کی چینی مصنوعات پر 10 کے بجائے 25 فیصد اضافی ٹیرف عائد کرنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ دس  مئی کو انکا ارادہ حقیقت میں بدلا اور200 بلین ڈالر کی چینی مصنوعات پر اضافی 25 فیصد ٹیرف عائد کر دیا گیا ، 18 جون کو ٹرمپ اور شی جن پنگ میں ٹیلیفونک رابطے میں تجارتی مذاکرات کو دوبارہ جلا بخشنے پر اتفاق کیا گیا،جس کے بعد جی 20 سربراہ اجلاس کے موقع پر امریکا اور چین نے ایک دوسرے کو چند رعایتیں دینے پر اتفاق کرتے ہوئے تجارتی مذاکرات کو دوبارہ شروع کرنے کا باضابطہ اعلان کر دیا۔ کیلنڈر نے تاریخ بدلی اورٹرمپ نے اپنا رویہ ، امریکی صدر نے یکم اگست کو چین پر امریکی مصنوعات کی خریداری کا وعدہ وفا نہ کرنے کا الزام لگا کر مزید 300 ارب ڈالر کی چینی مصنوعات پر 10 فیصد اضافی ٹیکس عائد کر دیا جس کے نتیجے میں کل ملا کر 550 ارب ڈالر کی چینی مصنوعات اضافی امریکی ٹیکسوں کا نشانہ بن چکی تھیں۔ چین کا رد عمل آنے میں بھی دیر نہیں لگی اور اس نے 5 اگست کو امریکا کی زرعی مصنوعات کی خریداری روک دی  ، 13 اگست کو ٹرمپ نے یوٹرن لیا اور 300 ارب ڈالر کی چینی مصنوعات میں سے 175 ارب ڈالر پر اضافی 10 فیصد ٹیکس کا فیصلہ مؤخر کر دیا تاہم یہ فیصلہ چین کو سخت اقدامات اٹھانے سے نہ روک سکا اور 23 اگست کو چین نے75 بلین ڈالر کی امریکی مصنوعات پرکم ازکم 10 فیصد اضافی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کر دیا۔ 20 ستمبر کو چین اور امریکا کے اہم تجارتی مذاکرات اختتام کو پہنچے جنہیں نتیجہ خیز قرار دیا گیا ، ان کے بعد ہی امریکا نے 400 چینی مصنوعات کو اضافی ٹیکس کی لسٹ سے خارج کیا جبکہ 23 ستمبر کو چینی کمپنیوں نے 6 لاکھ ٹن سویا بین خرید کر خیرسگالی کا پیغام دیا۔ تصویر کا رخ ایک بار پھر بدلا اور امریکا نے 7 اکتوبر کو انسانی حقوق کی پامالیوں کا الزام لگا کر اپنے اداروں کو 28 چینی اداروں کیساتھ کسی بھی قسم کے کاروباری لین دین اور تعلقات سے روک دیا۔ تمام تر تلخیوں کے باوجود تجارتی معاہدے کیلئے مذاکرات جاری رہے اور بالآخر ایک اچھی خبر مل ہی گئی ، بات اعلانات سے آگے بڑھی اور 13 دسمبر کو دونوں ممالک نے تجارتی معاہدے کے پہلے مرحلے کا اعلان کر دیا،جسے امریکی صدر نے شاندار قرار دیتے ہوئے اگلے برس کے آغاز میں ہی تجارتی معاہدے کے اگلے مرحلے پر مذاکرات شروع کرنے کی نوید بھی سنا دی۔