Friday, March 29, 2024

خاور مانیکا کی بیٹی سے بدتمیزی کا پہلا واقعہ 5 اگست کو پیش آیا، انکوائری افسر

خاور مانیکا کی بیٹی سے بدتمیزی کا پہلا واقعہ 5 اگست کو پیش آیا، انکوائری افسر
August 31, 2018
اسلام آباد (92 نیوز) ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے پر ازخود نوٹس کیس میں انکوائری افسر نے کہا کہ خاور مانیکا کی بیٹی  سے بدتمیزی کا پہلا واقعہ 5 اگست کو پیش آیا لیکن کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے پر ازخودنوٹس کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ انکوائری آفیسر ایڈیشنل آئی جی ابوبکر خدا بخش نے اپنی رپورٹ پیش کی اور بتایا  کہ خاتون جو خاور مانیکا  کی بیٹی ہیں ان سے بدتمیزی کا پہلا واقعہ 5 اگست کو پیش آیا، 6 اگست سے 23 اگست تک اس معاملے پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور نہ ہی کسی نے رابطہ کیا۔ ‎  دوران سماعت آر پی او ساہیوال شارق کمال نے عدالت کو بتایا کہ خاور مانیکا کو ناکے پر روکا لیکن وہ نہیں رکے اور پولیس والوں کو برا بھلا کہا۔ سابق ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل  نے عدالت  کو آگاہ کیا کہ واقعہ والے دن چار بجے وزیراعلیٰ پنجاب کے پی ایس او حیدر کی کال آئی کہ رات دس بجےوزیراعلی ہاوس پہنچ جائیں۔ رات 10 بجے وہاں پہنچا تو احسن جمیل کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بطور بھائی متعارف کرایا۔ احسن جمیل نے ان  سے پوچھا کہ مانیکا فیملی کا بتائیں، لگتا ہے ان کے خلاف سازش ہورہی ہے۔ رضوان گوندل نے  عدالت کو مزید بتایا کہ 26 اگست کی رات کو پی ایس او اور سی ایس او کو وزیراعلیٰ نے فون کیا اور کہا کہ آئی جی کو بتائیں ہم ڈی پی او کو 9 بجے سے پہلے تک ہٹا دیں گے، ساڑھے 12 بجے آر پی او کو فون کرکےان کےتبادلے کا بتایا، پی ایس او نے صبح پھر فون کیا کہ وزیراعلی پوچھ رہے ہیں کہ کیا  انہوں نے چارج چھوڑ دیا۔ آئی جی پنجاب پولیس کلیم امام نے عدالت کے روبرو کہا کہ مجھ پر تبادلے کے لیے کوئی دباؤ نہیں، آئی جی پنجاب نے کمرہ  عدالت میں  بلند آواز میں کہا کہ تبادلہ سزا نہیں ہوتا جس پر چیف جسٹس نے سرزنش کی اور  کہا کہ عدالت میں اونچی آواز میں بات نہ کریں۔