حکومت کا فوجی عدالتوں کی آئینی مدت میں توسیع کا اصولی فیصلہ،تیاریاں مکمل کرلیں
اسلام آباد ( 92 نیوز) حکومت نے فوجی عدالتوں کی آئینی مدت میں توسیع کا اصولی فیصلہ کر لیا ، وزارت قانون اور وزارت داخلہ نے تیاریاں مکمل کر لیں ، تاہم پارلیمان میں حکومت کو مطلوبہ دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے حزب اختلاف کا تعاون ناگزیر ہو گیا۔
آرمی پبلک سکول میں16 دسمبر2014 کو دہشتگردوں کے حملے کے نتیجے میں 149 معصوم طلباءو اساتذہ کی شہادت کے بعد ملک سے دہشت گردی کے ناسور کے جڑ سے خاتمے اور دہشتگردوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے نیشل ایکشن پلان کے تحت 21ویں آئینی ترمیم کےذریعے 7 جنوری 2015 کو فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔
فوجی عدالتوں کی مدت 2 سال تھی، 6 جنوری 2017 کو رات 12 بجے ختم ہوئی ، فوجی عدالتوں کے ذریعے مقدمات کے جلد فیصلوں سے ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں کمی ہوئی، تاہم مدت پوری ہونے کے بعد 7 جنوری 2017 سے 30 مارچ 2017 تک فوجی عدالتیں غیر فعال رہیں۔
ن لیگ کی حکومت نے 2017 میں پارلیمنٹ سے 23ویں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سالہ توسیع اور آئینی تحفظ دیا۔ سال نو پر حکومت کیلئے سب سے بڑا چیلنج فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع ہے۔
آئینی طور پر فوجی عدالتوں کی مدت 6 جنور ی 2019 رات 12 بجے تک تھی ۔ حکومت نے فوجی عدالتوں کی آئینی مدت بڑھانے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے جس کیلئے داخلہ اور قانون کی وزارتیں تیار ہیں مگر بل منظوری کے لیئے حکومت کو پارلیمان میں دو تہائی اکثریت درکار ہے ۔ حکومتی بنچز کیلئے حزب اختلاف کی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا ناگزیر ہو گئی ۔
فوجی عدالتوں کی 4 سالہ مدت میں حکومت کی جانب سے717 مقدمات بھجوائے گئے جن میں سے 646 مقدمات کا فیصلہ ہوا جبکہ 71 مقدمات تاحال زیر التوا ہیں ۔
مقدمات میں 345 دہشتگردوں کو سزائے موت جبکہ 286 کو مختلف دورانیہ کی قید کی سزائیں سنائی گئیں ۔ جن کی کم سے کم مدت 5 سال ہے ۔
سزائے موت پانے والوں میں سے 56 دہشتگردوں کو پھانسی دے دی گئی،فوجی عدالتوں نے 5 ملزمان کو جرائم ثابت نہ ہونے پر بری کر دیا۔