Thursday, May 2, 2024

حکومت کا فوجی عدالتوں کی آئینی مدت میں توسیع کا اصولی فیصلہ،تیاریاں مکمل کرلیں

حکومت کا فوجی عدالتوں کی آئینی مدت میں توسیع کا اصولی فیصلہ،تیاریاں مکمل کرلیں
January 10, 2019
اسلام آباد ( 92 نیوز) حکومت نے  فوجی عدالتوں کی آئینی مدت میں توسیع کا اصولی فیصلہ کر لیا ، وزارت قانون اور وزارت داخلہ نے تیاریاں مکمل کر لیں ، تاہم پارلیمان میں حکومت کو مطلوبہ دو تہائی اکثریت نہ ہونے کے باعث مشکلات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے حزب اختلاف کا تعاون ناگزیر ہو گیا۔ آرمی پبلک سکول میں16 دسمبر2014 کو  دہشتگردوں کے حملے کے نتیجے میں 149 معصوم طلباءو اساتذہ کی شہادت کے بعد ملک سے دہشت گردی کے ناسور کے جڑ سے  خاتمے اور دہشتگردوں کو منطقی  انجام تک پہنچانے کے لیے نیشل ایکشن پلان کے تحت 21ویں آئینی ترمیم کےذریعے  7 جنوری 2015  کو  فوجی عدالتوں کا قیام  عمل میں لایا گیا۔ فوجی عدالتوں کی  مدت 2 سال تھی، 6 جنوری 2017 کو رات  12 بجے ختم ہوئی ، فوجی عدالتوں کے ذریعے  مقدمات کے جلد فیصلوں سے  ملک میں دہشتگردی کے واقعات میں نمایاں کمی  ہوئی، تاہم مدت پوری ہونے  کے بعد 7 جنوری 2017 سے 30 مارچ 2017 تک فوجی عدالتیں  غیر  فعال  رہیں۔ ن لیگ  کی حکومت نے 2017 میں پارلیمنٹ  سے 23ویں آئینی ترمیم کے ذریعے  فوجی عدالتوں کی مدت میں دو سالہ توسیع  اور  آئینی تحفظ دیا۔ سال نو پر حکومت کیلئے سب سے بڑا  چیلنج فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع ہے۔ آئینی طور پر  فوجی عدالتوں کی مدت 6 جنور ی 2019 رات  12  بجے  تک تھی ۔ حکومت  نے  فوجی عدالتوں کی  آئینی مدت بڑھانے کا اصولی  فیصلہ کر لیا ہے جس کیلئے  داخلہ اور قانون کی وزارتیں  تیار ہیں  مگر بل منظوری  کے لیئے  حکومت کو پارلیمان  میں دو تہائی اکثریت درکار   ہے ۔ حکومتی بنچز   کیلئے  حزب اختلاف  کی جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا ناگزیر ہو گئی ۔ فوجی عدالتوں  کی  4  سالہ مدت  میں حکومت کی جانب سے717 مقدمات بھجوائے گئے  جن میں  سے 646 مقدمات  کا فیصلہ  ہوا جبکہ 71 مقدمات تاحال  زیر التوا  ہیں ۔ مقدمات میں  345 دہشتگردوں کو سزائے موت جبکہ  286 کو  مختلف دورانیہ کی قید کی سزائیں سنائی  گئیں ۔ جن کی کم  سے کم مدت 5 سال ہے ۔ سزائے موت  پانے والوں میں سے 56 دہشتگردوں کو پھانسی  دے دی گئی،فوجی عدالتوں  نے 5 ملزمان  کو جرائم ثابت نہ ہونے پر بری کر دیا۔