Sunday, September 8, 2024

تھر کے بنجر صحرا میں بھوک اور بیماری نے مزید دو بچوں کی جان لے لی

تھر کے بنجر صحرا میں بھوک اور بیماری نے مزید دو بچوں کی جان لے لی
January 10, 2016
تھرپارکر (92نیوز) تھرپارکر میں بھوک اور بیماری مزید دو جانیں لے گئی جس سے رواں مہینے جاں بحق ہونے والے بچوں کی تعداد بتیس ہو گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق تھرپارکر میں موت کا سایا برقرار ہے اور مختلف بیماریوں کے باعث رواں ماہ کے 10 دنوں میں اب تک 32 بچے موت کا شکار ہو چکے ہیں۔ سول اسپتال مٹھی میں آج بھی 50 سے زائد بچے زیر علاج ہیں۔ اسلام کوٹ میں 28 ‘ چھاچھرو میں 31 بچے زیر علاج ہیں۔ اس کے علاوہ ڈیپلو اورڈاہلی کے دیہی صحت مراکز میں بھی کئی بچے اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ دوسری جانب کمشنر میرپورخاص نے سرکار کے جاگنے تک تھر میں دوردراز علاقوں تک جانے کے لئے تھر کی لوکل این جی اوز سے مدد مانگ لی۔ این جی اوز والے تھر کے ہر علاقے میں جاکر بیمار بچوں کو اسپتال تک رسائی کرنے کا کام کریں گے۔ واضح رہے کہ وسیع و عریض رقبے پر پھیلا سندھ کا صحرا تھر چھ تحصیلوں پر مشتمل ہے۔ سواری کےلئے کیکڑا نامی بس چلتی ہے یا پھر جیپ۔ بجلی صرف شہروں تک محدود ہے۔ تھر میں زندگی اتنی آسان نہیں‘ زندگی پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا ہار بھی ہے۔ سندھ اور وفاق کی نظر میں ڈسٹرکٹ مٹھی کو ہی تھر سمجھا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ چھ تحصیلوں چھاچھرو، مٹھی ڈیپلو، ڈاہلی، اسلام کوٹ اور ننگر پارکر اس ضلع میں شامل ہیں۔ سرکاری اعداد و شما رکے مطابق 2ہزار 325گاو¿ں رجسٹرڈ ہیں۔ سانپ کی طرح بل کھاتی سڑک ارباب غلام رحیم کے دور میں تعمیر کی گئی تھی لیکن گاو¿ں میں ریت پر چلنے والی مخصوص سواری کیکڑا اور جیپ میں سفر کیا جائے تو جسم اور دماغ کے انچرپنجر بھرپور طریقے سے ہل جاتے ہیں۔ ریت میں سواری کے لیے صرف جیپ ہی کام آتی ہے۔ سورج ڈھلے تو چاندی جیسی سفید ریت کی چمک بھی ماند پڑنا شروع ہو جاتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ تھر میں دن صرف دس گھنٹے کا ہوتا ہے تو ایسا کہنا غلط نہیں ہوگا۔ شہروں میں بجلی ہے لیکن دیہات اب تک ایک بلب کی چمک دیکھنے سے بھی محروم ہیں۔ یہاں کے باسیوں کا گزربسر صرف جانوروں کی افزائش پر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تھر میں پاکستان کی ضرورت کے پچیس فیصد جانوروں کی افزائش ہوتی ہے۔