Sunday, September 8, 2024

تنخواہ وصول نہ کرنے پر باسٹھ ایف ون کیسے لگ سکتی ہے، نوازشریف کے وکیل کا استفسار

تنخواہ وصول نہ کرنے پر باسٹھ ایف ون کیسے لگ سکتی ہے، نوازشریف کے وکیل کا استفسار
September 13, 2017

اسلام آباد (92 نیوز) پانامہ فیصلے کےخلاف نظر ثانی درخواستوں کی پہلی سماعت پر ہی نوازشریف کے وکیل کے طویل دلائل سامنے آگئے ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کاکہناہے کہ پانچ ججوں نے نوازشریف کو متفقہ طور پر نااہل کیا ،فیصلے کے نتیجے میں کوئی فرق نہیں ۔جسٹس اعجاز الاحسن کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص 10 ہزار درہم چوری کرے تو وہ جیل جاتا ہے۔کیا عام آدمی اور ارب پتی کےلئے قانون الگ الگ ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے پانامہ فیصلے کے خلاف درخواستوں کی پہلی سماعت کی ۔ نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 28جولائی کا فیصلہ 5رکنی بنچ نے سنایا تھا جبکہ 2 ججز 20 اپریل کو اپنا فیصلہ دے چکے تھے۔20 اپریل کے فیصلے کے بعد 2 ججز کے بینچ میں بیٹھنے کا جواز نہیں تھا ۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ 2 ججوں کا 20 اپریل کا فیصلہ آپ نے کہیں چیلنج نہیں کیا؟ خواجہ حارث کاکہنا تھا کہ 2ججوں کے فیصلے کی قانونی حیثیت نہیں تھی اکثریتی فیصلے کو تسلیم کیا گیا تھا اس لئے چیلنج نہیں کیا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ 20 اپریل کو دو ججز نے حتمی فیصلہ دیا،تین ججز نے مزید تحقیقات کا کہا۔20 اپریل کو دو فیصلے دیئے گئے تین ججز نے یہ نہیں کہا کہ دو ججز کے فیصلے سے اختلاف ہے۔اختلاف رائے یا اقلیتی رائے والے ججز آرڈر آف دی کورٹ پر دستخط کرتے ہیں۔تمام ججز کا فیصلے پر دستخط کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ فیصلہ سپریم کورٹ کے تمام ججز کا ہے۔۔پانامہ فیصلے کے نتیجے میں کوئی فرق نہیں۔پانامہ فیصلے کا نتیجہ یہ ہے کہ نواز شریف نااہل ہیں۔جسٹس عظمت سعید شیخ کا کہنا تھا کہ دو ججوں نے نواز شریف کو تقاریر پر نااہل کیا۔3 ججوں نے اخلاقی نہیں بلکہ قانونی نقطہ پر بھی نااہل کیا۔

خواجہ حارث نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ نوازشریف کو ایف زیڈ ای کمپنی کے معاملے پر نااہل کیا گیا۔۔اثاثے ظاہر نہ کرنے پر 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہل قرار دینا درست نہیں۔۔جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ نے کسی فیصلے میں کہا کہ آرٹیکل 62 ایف ون کے تحت نااہلی تاحیات ہے؟

خواجہ حارث کا یہ بھی کہنا تھاکہ نوازشریف نے ایف زیڈ ای کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کی حیثیت سے کبھی تنخواہ وصول نہیں کی۔اثاثہ وہ ہوتا ہے جو مالک کے قبضے میں ہو ۔عدالت نے وہی تعریف کیوں لی جو نواز شریف کے خلاف جاتی تھی۔۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ آپ نے تحریری دلائل میں لکھا ہے کہ آپ نے تنخواہ وصول نہیں کی ۔غیر وصول شدہ تنخواہ اثاثہ ہوتی ہے۔۔جسٹس اعجاز الاحسن کاکہنا تھا کہ نواز شریف کا اقامہ معطل نہیں ہوا۔ اگر کوئی شخص 10 ہزار درہم چوری کرے تو وہ جیل جاتا ہے۔کیا عام آدمی اور ارب پتی کے لیے قانون الگ الگ ہے۔عدالت نے کیس کی سماعت 14 ستمبر تک ملتوی کردی۔