Thursday, May 9, 2024

تمباکو نوشی کی صنعت پر ٹیکس

تمباکو نوشی کی صنعت پر ٹیکس
June 7, 2020

بچوں میں تمباکو نوشی کے بڑھتے ہوئے رجحانات روکنے کے لیے تمباکو مصنوعات پر بھاری ٹیکسز لگانا ناگزیر ہے ۔  اسکول کے بچوں میں فیشن ٹرینڈ یا پئیر پریشر کی وجہ سے سگریٹ نوشی، ای سگریٹس اور شیشے کا بڑھتا ہوا رجحان ایک لمحہ فکریہ ہے۔

 عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو بنانے والی کمپنیاں بچوں کو تمباکو نوشی کی طرف راغب کرنے کے لئے جان لیوا اسکیموں کا استعمال کر رہی ہیں جو کہ آنے والی نسل کی بقا کے لیے خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔

انسداد تمباکو نوشی کے عالمی دن کے موقع پر عالمی ادارہ صحت  کا کہنا تھا کہ سگریٹ مصنوعات کے استعمال سے سالانہ آٹھ لاکھ افراد ہلاک ہوجاتے ہیں جو کہ پوری ایک نسل کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔

اگر صرف پاکستان کی بات کی جائے تو ایک سروے کے مطابق پاکستان میں روزانہ 1200 سے 1500 اسکول جانے والے بچے سگریٹ نوشی کے نشے کا شکار ہوجاتے ہیں۔

اس حوالے سے عالمی ادارہ صحت کا کہنا تھا کہ تمباکو والی کمپنیاں نوجوانوں کو اپنی مصنوعات کی طرف راغب کرنے کے لیے جان لیوا اسکیمیں استعمال کر رہی ہیں۔

ایک سروے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں 20 ملین بچے تمباکو نوشی کے نشے میں مبتلا ہیں جبکہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں 13 سے 15 سال کی عمر میں 44 ملین بچے تمباکو نوشی کے عادی ہیں۔

تمباکو بنانے والی کمپنیاں نہ صرف ذائقہ دار سگریٹس، ای سگریٹس اور شیشہ کے ذریعے بلکہ ان مصنوعات کی اشتہاری مہمات اور مفت نمونے فراہم کرکے کم عمر بچوں میں جان لیوا عادت ڈالنے کا باعث بنتی ہیں۔

ڈبلیو ایچ او کے مشاہدہ کے مطابق تمباکو بنانے والی کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے سالانہ نو بلیں ڈالر خرچ کرتی ہیں تاکہ آٹھ ملین نئے نوجوان صارفین کو سگریٹ نوشی کی طرف راغب کیا جاسکے۔ یہ اقدامات ان آٹھ ملین سگریٹ پینے والے لوگوں کا خسارہ پورا کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں جو ہر سال تمباکو نوشی سے متعلق پیچیدگیوں کی وجہ سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ہیلتھ ایجنسی نے نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے سگریٹ نوشی کے رجحان کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس حوالے سے تمباکو اور اس سے متعلقہ صنعتوں کی مارکیٹنگ کی خطرناک حکمت عملیوں کو روکنے کے لیے حکومتی اقدامات اور تمباکو مصنوعات پر بھاری ٹیکس لگانا سب سے موثر حکمت عملی ثابت ہوئی ہے۔

کورونا وائرس کے بحران کے دوران تمباکو بنانے والی کمپنیوں نے اپنی مارکیٹنگ کرنے کے لیے اپنے لوگو والے چہرے کے ماسک لوگوں کو مفت فراہم کیے۔

علاوہ ازیں عالمی ادارہ صحت کے مطابق تمباکو کی صنعت نے نہ صرف اپنے صارفین کو کرونا وائرس کے باعث لاک ڈاوٗن کے دوران گھر کی دہلیز پر سگریٹ مصنوعات کی ترسیل کی پیش کش کی ہے بلکہ کچھ ممالک میں باقاعدہ لابنگ کی گئی کہ تمباکو کی مصنوعات کوروناوائرس سے بچاوٗ کا سبب بنتی ہیں جو کہ سراسر غلط ہے۔

ابھی کجھ دن پہلے مجھے ایک ویبنار میں شرکت کا موقع ملا جس میں شرکا نے اعدادوشمار کے ذریعے تمباکونوشی کے نقصانات پر بات کی

ہيومن ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے سی ای او اظہر سليم کا کہنا تھا کہ تمباکو کے استعمال سے پاکستان میں سالانہ ایک اعشاریہ چھ ملیں اموات واقع ہوتی ہیں

اظہر سليم نے زور دیا کہ تمباکو نوشی کا بڑھتا ہوا رجحان روکنے کے لیے امپورٹڈ اور برانڈڈ سگریٹس اور تمباکو مصنوعات پربجٹ ۲۰۲۰ میں بھاری ٹیکس عائد کرنا ناگزیر ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پاکستان ميں سگریٹ نوشی کی سالانہ معاشی لاگت تقریبا 143 ارب روپے ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ٹيکس کے اسٹرکچر ميں تبدیلی کے ذریعے تمباکو کی صنعت لوگوں کی جان پرکھيلتے ہوئے خود کو ٹيکسوں سے بچاتی ہے۔ اظہر سلیم نے اس امر پر زور دیا کہ مالی سال 2021-2020 کيلئے تمباکو کی مصنوعات پر ٹيکس کو حتمی شکل دینے کے دوران حکومت کو مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح کو ذہن ميں رکھنے کی ضرورت ہے اور تمباکو کی مصنوعات پر ایف ای ڈی ميں 20 روپے کا ہر سليب ميں اضافہ کيا جاناچاہئیے۔

ایک اور اسپیکر نے حکومت پر زور دیا کہ وہ تمباکو کی صنعت کے ٹیکسز سے بچنے کے مختلف ہتھکنڈوں سے متاثر نہ ہوں اور تمباکو کی مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کریں کیونکہ عالمی سطح پر تمباکو کے کنٹرول کے ایک موثر اقدام کے طور پر تجربہ کیا گیا ہے جس کے مطابق تمباکو پر زیادہ ٹیکس نہ صرف زیادہ آمدنی کا باعث بنے گا بلکہ اس مہلک مصنوعات تک نوجوانوں کی رسائی کو بھی محدود کرنے میں کارآمد ثابت ہوگا۔

تحریر وارث پراچہ