Tuesday, April 23, 2024

ترقی پذیر کیساتھ ترقی یافتہ ممالک میں فضائی آلودگی ختم کر کے لاکھوں جانوں کو بچایا جا سکتا ہے: تحقیقاتی رپورٹ

ترقی پذیر کیساتھ ترقی یافتہ ممالک میں فضائی آلودگی ختم کر کے لاکھوں جانوں کو بچایا جا سکتا ہے: تحقیقاتی رپورٹ
June 18, 2015
مینیا پولس (ویب ڈیسک) ایک تازہ تحقیقاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے آلودہ ترین علاقوں کے علاوہ امریکہ، کینیڈا اور یورپ میں بھی فضائی آلودگی کو ختم کرنے سے اس آلودگی کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں کمی ممکن ہے۔ اس رپورٹ سے اس بات کی ضرورت مزید بڑھ گئی ہے کہ ہوا کو آلودگی سے پاک کرنے کی ضرورت صرف آلودہ ترین ممالک میں ہی نہیں بلکہ اس کی ضرورت ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ہے۔ یونیورسٹی آف مینیسوٹا کے محققین کی جانب سے تیار کردہ اس رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی سے بری طرح متاثرہ ممالک مثال کے طور پر روس، چین اور بھارت میں اگر ہوا کو اقوام متحدہ کے معیارات کے مطابق صاف کر لیا جائے تو ان ممالک میں سالانہ بنیادوں پر 1.4 ملین انسانوں کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ایسے خطے جہاں ہوا میں آلودگی زیادہ نہیں ہے، اگر وہاں فضائی آلودگی کے خاتمے کےلئے اقوام متحدہ کے اہداف کو یقینی بنایا جائے تو وہاں سالانہ بنیادوں پر آلودگی کے باعث نصف ملین قبل از وقت ہلاکتوں کو کم کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ آلودہ ہوا میں موجود انتہائی باریک ذرات عمل تنفس کے دوران پھیپھڑوں کے بہت زیادہ اندر چلے جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق یہی باریک ذرات سالانہ ایسی 3.2 ملین اموات کا باعث بن جاتے ہیں، جنہیں احتیاطی تدابیر کے باعث روکا جا سکتا ہے۔ اس رپورٹ کو تیار کرنے والی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ جوشوآ آپٹے اور ان کے ساتھیوں نے اپنی توجہ ہوا میں موجود ایسے باریک ذرات پر مرکوز کی، جو 2.5 مائکرون سے بھی باریک اور چھوٹے تھے۔ ہوا میں موجود اس قسم کے ذرات دل کی بیماریوں، اسٹروکس، پھیپھڑوں کی پیچیدگیوں اور کینسر کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔ اس طرح کے خطرناک ذرات کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس، کاروں سے خارج ہونی والی گیسوں اور صنعتی سبزمکانی گیسوں سے پیدا ہوتے ہیں جبکہ ترقی پذیر ممالک میں کھانا پکانے اور موسم سرما میں گھروں کو گرم کرنے کی خاطر کوئلے اور لکڑیوں کو جلانے کے عمل سے بھی یہ خطرناک ذرات ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں۔ یہ تحقیقاتی رپورٹ معروف سائنسی جرنل ”ماحولیاتی سائنس اینڈ ٹیکنالوجی“ میں شائع ہوئی ہے۔