Friday, May 3, 2024

بے نظیربھٹو جہد مسلسل اور قربانیوں کی داستان

بے نظیربھٹو جہد مسلسل اور قربانیوں کی داستان
December 27, 2017

کراچی (92 نیوز) بے نظیر بھٹو نہ اچانک آئیں اور نہ ہی اچانک چھائیں۔ بے نظیر بھٹو جہد مسلسل اور قربانیوں کی ایک ایسی داستان ہے جس پر ان کو جتنا بھی خراج عقیدت پیش کیا جائے، کم ہے۔
بے نظیر بھٹو 21 جون 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔
آکسفورڈ یونیورسٹی سے فلسفہ، سیاست اور معاشیات میں گریجویشن کی اور یونیورسٹی کے انتخابات میں حصہ لے کر یونین کی صدر بھی منتخب ہوئیں۔
1977 میں جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء لگا کر ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پرلٹکایا۔
بے نظیر کو 1979 سے 1984 تک مختلف جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں جھیلتے اور نظر بندی کا سامنا رہا۔ اس دوران دس ماہ کی قید تنہائی بھی کاٹی۔
رہا ہونے کے بعد دو سال کے لیے برطانیہ میں خود ساختہ جیلا وطنی کاٹی اور اگست 1985 میں بھائی شاہ نواز بھٹو کی تدفین کے لیے واپس لوٹیں۔
ایک سال بعد مارشل لاء کے خاتمے پر 10 اپریل 1986 کو وطن واپسی پر لاہور ائیرپورٹ پر لاکھوں لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔
18دسمبر 1987 کو ان کی شادی آصف علی زرداری سے ہوئی۔
1988 کے انتخابات میں 35 سال کی عمر میں بے نظیر بھٹو پاکستان کی تاریخ کی کم عمر ترین اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم ہونے کا اعزاز اپنے نام کیا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی تربیت میں پروان چڑھنے والی بینظیر دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں۔
18 اکتوبر 2007 کو جب بے نظیر پاکستان آئیں تو پختہ سیاست دان کا روپ اختیار کر چکی تھیں۔
نواز شریف جیسے روایتی حریف بے نظیر بھٹو کی ذہانت اور نظریات کے قائل ہو چکے تھے۔ ملک کی فضا میں بامقصد سیاست کا رجحان پروان چڑھ ہی رہا تھا کہ 27 دسمبر 2007 نے پاکستان کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
لیاقت باغ کے کامیاب جلسے کے بعد واپسی پر پاکستان کے دشمنوں نے بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا ۔
بینظیر بھٹو کوگڑھی خدابخش میں ان کے والد کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
پیپلز پارٹی آج بھی اس نقصان کو پورا نہیں کر پائی ہے ۔