Friday, April 19, 2024

بوسنیا کے مسلمانوں کے بد ترین قتل عام کو 25 سال بیت گئے

بوسنیا کے مسلمانوں کے بد ترین قتل عام کو 25 سال بیت گئے
July 11, 2020

سراجیو ( 92 نیوز) بوسنیا کے مسلمانوں کے بدترین قتل عام کو 25 سال بیت گئے ، گیارہ جولائی 1995 میں سرب فوجیوں نے  ہرزیگووینا میں سربرینیکا کے قصبے پر قبضہ کیا تو آئندہ دس دنوں میں ان درندہ صفت فوجیوں نے منظم انداز میں 8000 سے زائد بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کر ڈالا، دوسری عالمی جنگ کے بعد، یورپ کی سرزمین پر یہ بدترین نسل کشی تھی۔

بوسنیائی مسلمانوں کی نسل کشی کی خون آلود تاریخ 90 کی دہائی سے شروع ہوتی ہے، 1990 کی دہائی میں جب یوگوسلاویہ کے ٹکڑے ہوئے تو کئی مسلح تنازعات نے جنم لیا، بوسنیائی جنگ بھی ان تنازعات میں سے ایک تھی۔

بوسنیا  ہرزیگووینا نے 1992 میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے اپنی آزادی کا اعلان کیا کچھ ہی عرصے بعد اسے امریکی اور یورپی حکومتوں نے تسلیم کر لیا، بوسنیائی سرب آبادی نے ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تھا ، جلد ہی سربیا کی حکومت کی حمایت یافتہ بوسنیائی سرب فورسز نے اس نئے ملک پر حملہ کر دیا۔

یہ حملہ گریٹر سربیا منصوبے کا حصہ تھا جس کی تکمیل کیلئے بوسنیائی مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔ ابتدائی طور پر بوسنیائی سرب فورسز نے 1992 میں سربرینیکا پر قبضہ کیا، جسے بوسنیائی فوج نے جلد ہی چھڑا لیا تھا۔

اپریل 1993 میں اقوامِ متحدہ نے اس علاقے کوکسی بھی مسلح حملے سے محفوظ قرار دے دیا، مگر محاصرہ پھر بھی جاری رہا، جس کے باعث بوسنیائی مسلمان بھوک سے مرنے لگے ۔ چھ جولائی 1995 کو بوسنیا کی سرب فورسز نے سربرینیکا پر بھرپور حملہ کیا، اقوام متحدہ کی افواج نے ہتھیار ڈال دیے اور جب نیٹو فورسز کو فضائی حملے کے لیے بلایا گیا تو انہوں نے بھی کوئی مدد نہ کی یوں سربرینیکا نامی یہ علاقہ پانچ دنوں میں ہی سرب فورسز کے قبضے میں آ گیا۔

قتل عام کا ماسٹرمائنڈ جنرل ملادچ دوسرے جرنیلوں کے ساتھ شہر میں  داخل ہوا تو اس کے چہرے سے سفاکیت ٹپک رہی تھی ، قبضے کے دوسرے دن ہی قتل و غارت گری کا آغاز ہو گیا۔

جب مسلمان پناہ گزین شہر چھوڑنے کے لیے بسوں پر سوار ہوئے تو ملادچ کے فوجیوں نے مردوں اور لڑکوں کو ہجوم سے الگ کیا اور انھیں دور لے جا کر گولیاں مار دیں۔

ہزاروں افراد کو پھانسی دے دی گئی اور پھر بلڈوزروں کے ذریعہ ان کی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں دھکیل دیا گیا اور بعض افراد کو تو زندہ ہی دفن کر دیا گیا۔

اسی دوران خواتین اور لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی اور انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔  نسل کشی کے 25 سال بعد آج بھی متاثرین کی لاشیں اور اجتماعی قبریں ملتی ہیں اور قتل و غارت کے بہیمانہ منصوبے کی دردناک کہانی سناتی ہیں۔